عمران خان کون سا میچ کھیلنا پسند کریں گے؟

عمران خان معاشی منظرنامے سے جڑی نزاکتوں کو نہ سمجھ سکے اور غیر ضروری احتجاج کے جانب مائل رہے تو یہ عمران بمقابلہ پی ڈی ایم کی بجائے عمران بمقابلہ ملکی معیشت بن جائے گا، آثار بتاتے ہیں کہ ہیئت مقتدرہ اب ان چونچلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔  

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  کے کارکنان 21 اکتوبر 2022 کو کراچی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اس کالم کو مصنف کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے بعد عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ میرے خیال میں ہومیو پیتھک سا یہ فیصلہ عمران خان کے لیے کوئی چیلنج نہیں، ان کا اصل چیلنج کچھ اور ہے۔  سوال یہ ہے وہ اس حقیقی چیلنج سے کس قدر آگاہ ہیں؟

عمران خان کا اصل چیلنج اس وقت ان کے سیاسی حریف نہیں، بلکہ ملک کا معاشی منظرنامہ ہے۔

عمران اس سے جڑی نزاکتوں کو نہ سمجھ سکے اور غیر ضروری احتجاج کے جانب مائل رہے تو یہ عمران بمقابلہ پی ڈی ایم کی بجائے عمران بمقابلہ ملکی معیشت بن جائے گااور  آثار بتاتے ہیں کہ ریاست کی ہیئت مقتدرہ اب ان چونچلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔  

معیشت کی بحالی اس وقت پاکستان کی اولین ترجیح ہے اور معاشی استحکام کے لیے ملک میں سیاسی استحکام لازمی ہے۔  جو ایڈونچر ہونے تھے، ہو گئے۔  اس کی جو قیمت دی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔  

عمران خان اس وقت مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ یہ اب ان پر منحصر ہے وہ بصیرت سے کام لے کر اس مقبولیت کو اپنی طاقت بنا لیں یا وہ اپنی افتاد طبع کا شکار ہو کر کسی مہم جوئی کی طرف بڑھیں اور یہ طاقت ہی ان کی کمزوری بن جائے۔

عمران خان اگر اپنی مقبولیت کے زعم پر احتجاج اور تصادم کی طرف بڑھتے ہیں تو اس بار حکومت کا حسن سلوک مختلف ہو گا اور ڈی چوک پر ترانے نہیں بجیں گے۔  اس دفعہ ایسا کچھ ہوا تو ڈی جے بٹ کی بجائے پولیس بینڈ بجائے گی اور دھنیں بکھیرے گی۔  یہ حسن سلوک حکومت کا نہیں، ریاست کا ہو گا۔

 بنیادی حقوق یا جمہوری آزادیوں کے اقوال زریں اپنی جگہ لیکن یہ بات بظاہر طے ہو چکی ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے اگر سیاسی استحکام ضروری ہے تو اس استحکام کو یقینی بنایا جائے گا۔  ملکی معیشت  اب سیاسی انتشار، ہیجان اور اضطراب کو برداشت نہیں کر سکتی۔

عمران خان کا اقتدار میں آنا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔  کارکنان کے جذبات بھی بہت تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جتن بھی بہت کیے گئے۔  امیر خسرو والی بات کہ کھیر پکائی جتنوں سے،چرخا دیا جلا۔  

واقفان حال نازوادا سے بتاتے تھے کہ آنے والا کپتان پانچ سال کے لیے نہیں، دس سال کے لیے آیا ہے اور جب تبدیلی کے اقتدار کے دس سال پورے ہوں گے تو نواز اور زرداری کی طبعی عمر نہیں تو سیاست ضرور ختم ہوچکی ہو گی۔  

پھر ایسا کیا ہوا کہ بظاہر دس سال کے لیے آنے والوں کے پانچ سال بھی پورے نہ ہو پائے اور الامان الامان کی مناجات میں اقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ اس کا ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے:  معیشت۔  تبدیلی تو آ گئی لیکن کھیل ہی کھیل میں معیشت تباہ حال ہو گئی۔ نئے بندوبست کا متن کچھ بھی ہو، اس کا حاشیہ معیشت ہے۔

اب مگرمعیشت کی دنیا میں کچھ مثبت اشارے آ رہے ہیں۔  روپیہ کسی قدر سنبھلا ہے اور اب وزیر اعظم کو روپے کی قدر کی خبریں ٹی وی سے نہیں اسحاق ڈار سے ملتی ہیں۔  اگلے مہینے سعودی ولی عہد بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ اس دورے کی تزویراتی اہمیت بھی ہے لیکن اس سے بڑھ کر اس کی معاشی اہمیت ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ آ گیا تھا اور یہ ناخوشگوار صورت حال تاریخ میں پہلی مرتبہ رونما ہوئی تھی۔  

اب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔  سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں بیس لاکھ بیرل یومیہ کمی کی تو اس پر امریکہ نے سخت ردعمل دیا لیکن پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ دیا۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ اس معاملے پر کوئی ووٹنگ نہیں ہونے جا رہی تھی اور پاکستان خاموش بھی رہ سکتا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے سعودی عرب کے اس اقدام کی تائید کی۔  یہ کوئی معمولی اقدام نہیں تھا۔  یہ اس بات کا اظہار بھی تھا کہ پاکستان سعودی عرب تعلقات اب واپس اپنے مقام پر آرہے ہیں۔  نومبر میں سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔  

وزیر اعظم پاکستان اگلے ماہ چین کے دورے پر بھی جا رہے ہیں۔ سی پیک سے جڑے معاشی امکانات کے احیا کے لیے یہ دورہ بھی بہت اہم ہے۔ اس میں درجنوں ایم او یو متوقع ہیں۔  قرض کی ری شیڈولنگ کا بھی امکان ہے۔  اسحاق ڈار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ری سٹرکچرنگ کے لیے پیرس کلب نہیں جائے گا۔  اس مقصد کے حصول کے لیے چین کا دورہ بہت اہم ہے۔

یہ سارے معاشی امکانات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام رہے۔ جو اس سیاسی استحکام کو خراب کرے گا اسے معیشت پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران خان پی ڈی ایم کے اقتدار کو قبول کر لیں، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کھیل اب اپنے اصولوں پر کھیلا جائے گا۔ کھیلن کو چاند نہ مانگا جائے، نہ ہی وہ دیا جائے گا۔ (کم از کم جب تک معیشت کچھ بہتر نہیں ہو جاتی)۔

اس بحث سے قطع نظر کہ وہ نا اہل ہوئے ہیں یا ڈی سیٹ، امر واقع یہ ہے کہ جو بھی ہوا ہے ایک مختصر ترین دورانیے کے لیے ہوا ہے، تاحیات نہیں ہوا۔  اس اسمبلی میں اب عمران خان کی ویسے ہی کوئی دلچسپی نہیں۔  اس ایوان کا جو وقت شباب تھا وہ عمران خان بطور حکمران گزار چکے۔  ان کی نظر اب آئندہ انتخابات پر ہے اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ انہیں اگلے انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روک رہا۔

عمران خان کے سامنے امکانات کا جہان آباد ہے لیکن اس کے لیے انہیں پارلیمانی سیاست کرنا ہو گی  اور سمجھنا ہو گا کہ سیاست بند گلی سے رستے نکالنے کا نام ہے۔  ان کی مقبولیت غیر معمولی ہے لیکن اس مقبولیت کے زعم میں کوئی غلط اقدام اس بار انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔

یہ معرکہ عمران بمقابلہ پی ڈی ایم رہے تو بہتر ہے، یہ اگر عمران بمقابلہ معیشت بن گیا تو نقصان عمران کا ہو گا۔ یہ فیصلہ اب عمران نے کرنا ہے کہ انہوں نے کون سا میچ کھیلنا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ