قبائلی اضلاع میں الیکشن: پی ٹی آئی کی پرفارمنس خراب کیوں رہی؟

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق 16 حلقوں میں چھ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اس دوڑ میں پانچ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

قبائلی اضلاع میں ہونے والے پہلے انتخابات کے دوران ایک شخص ووٹ ڈالتے ہوئے (اے ایف پی)

قبائلی اضلاع کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق 16 حلقوں میں چھ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اس دوڑ میں پانچ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

اسی طرح جمیعت علمائے اسلام ف نے تین جبکہ جماعت اسلامی اور عوامی نیشل پارٹی نے ایک، ایک نشست جیتی۔

انتخابات سے قبل ایسا تاثر دیا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع میں پی ٹی آئی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے انتخابات سے قبل نجی ٹی وی چینل ’سما‘ سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کم از کم 11 سیٹیں جیتے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

پاکستان میں ضمنی انتخابات میں ایک عام تاثر یہ بھی رہا ہے کہ زیادہ تر اقتدار میں موجود پارٹی ہی ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے، تاہم قبائلی اضلاع میں ایسا نہ ہو سکا۔

پی ٹی آئی صرف چھ نشستیں کیوں جیت سکی؟

اس سوال کے جواب میں پشاور کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار صفی اللہ گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قبائلی اضلاع میں سیاست کی ڈائنامکس تھوڑی مختلف ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سابق قبائلی علاقہ جات میں انتخابات ہمیشہ پارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوئے۔‘

انھوں نے مزید بتایا: ’اب چونکہ پہلی بار صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات ہو رہے تھے اور پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن پھر بھی شخصیات کی بنیاد پر امیدوار جیتے ہیں۔‘

انھوں نے ضلع خیبر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’الحاج شاجی گل کے بیٹے نے ایک حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے جو اس کا شخصی ووٹ ہے کیونکہ شاہ جی گل لوگوں کے درمیان رہنے والا بندہ ہے اور ان کا اپنا ذاتی ووٹ بینک ہے جبکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا امیدوار وہاں کے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔‘

وزیرستان میں پی ٹی ایم اور سیاست

صفی اللہ گل کے مطابق وزیرستان کی سیاست میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا بھی بہت کردار رہا ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو وہاں اس ’تحریک‘ کو نوجوانوں کی سپورٹ حاصل ہے جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’آج کل کی نوجوان نسل سے پہلے کے لوگ صرف وہ چاہتے تھے جس میں ان کو فائدہ ہو، لیکن اب قبائلی نوجوانوں میں یہ شعور ضرور آگیا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں زیادہ تر نوجوانوں کا ووٹ بینک حاصل تھا جو اس انتخابات میں اس پارٹی کو نہیں ملا۔‘

پی ٹی ایم چونکہ بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ نہیں ہے اور اس تنظیم کے سربراہ منظور پشتین یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے پلیٹ فارم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا، اس لیے جتنے بھی پی ٹی ایم کے سپورٹرز انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، وہ آزاد حیثیت سے انتخابات لڑتے ہیں۔

یاد رہے کہ شمالی وزیرستان  کے حلقے 112 سے پی ٹی ایم کے سپورٹر میر کلام خان نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ شمالی وزیرستان کے حلقے111 سے پی ٹی آئی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔

اسی طرح جنوبی وزیرستان کے حلقے113 سے جمعیت علما اسلام کے امیدوار جبکہ حلقہ 114 سے پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔

ضلع خیبر سے کسی بھی پی ٹی آئی کے امیدوار نہیں نشست نہیں جیتی جبکہ ضلع باجوڑ کے تین حلقوں میں دو سیٹیں پی ٹی آئی جبکہ ایک سیٹ جماعت اسلامی نے حاصل کی ہے۔

ضلع مہمند میں بھی پی ٹی آئی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی۔ ایک نشست عوامی نیشنل پارٹی جبکہ ایک آزاد امیدوار نے جیتی ہے جبکہ ضلع کرم میں ایک سیٹ پی ٹی آئی اور ایک جے یو آئی ف نے حاصل کی ہے۔

ضلع اورکزئی اور سابق فرنٹیئر ریجن میں ایک، ایک حلقہ تھا۔ اورکزئی کی سیٹ آزاد امیدوار جبکہ فرنٹیئر ریجن کی سیٹ پر جے یو آئی ف نے کامیابی حاصل کی ہے۔

 ’پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کی تقسیم  میں غلطی کی‘

تجزیہ کار عقیل یوسفزئی  پی ٹی آئی کے امیدواروں کی شکست کو دوسری نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا بلکہ ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے بنائی گئی پارٹی کمیٹی نے اپنے من پسند امیدواروں کے ٹکٹیں دیں۔‘

ان کے مطابق ’اس تقسیم کا نقصان پارٹی کو ایسے ہوا کہ کارکنان نے اپنے امیدواروں کے لیے ویسی انتخابی مہمات نہیں چلائیں جو 2018 کے عام انتخابات میں دیکھنے کو ملی تھیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پی ٹی آئی نے یہ انتخابات ویسی سنجیدگی سے نہیں لیے تھے، جیسا رویہ عام انتخابات میں دیکھنے کو ملا تھا۔‘

ان کے مطابق: ’پی  ٹی آئی کا خیال تھا کہ قبائلی اضلاع میں ان کو وہی سپورٹ مل جائے گی جو 2018 کے عام انتخابات میں ملی اور اسی صوبے سے مل کر انھوں نے حکومت بنائی تھی۔ اب کی اور 2018 کی صورتحال میں بہت فرق ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست