نیٹ فلکس سیریز ’دی کرؤان‘ میں ہر کوئی اتنا پُرکشش کیوں ہے؟

سوال اٹھ رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر غیر پُرکشش لوگوں کے بارے میں ایک شو پُرکشش اداکاروں سے اتنا بھرا ہوا کیوں ہے؟

پانچ مارچ 2020 کی اس تصویر میں آسٹریلوی اداکار الزبتھ ڈیبیکی کو دیکھا جاسکتا ہے، جنہوں نے دی کراؤن کے حالیہ سیزن میں شہزادی ڈیانا کا کردار نبھایا ہے (اے ایف پی)

برطانوی مصنفہ اور سابق سیاست دان ایڈوینا کیوری کے علاوہ شاید کسی نے یہ بات نہ کی ہو کہ ’جان میجر ایک بہت ہی ہینڈسم انسان ہے۔‘ دی کراؤن کا نیا سیزن دیکھیں، برطانیہ کے سب سے بورنگ وزیراعظم کو دیکھ کر آپ کے منہ سے غصے کے مارے جھاگ نکل آئے گی۔

میجر - جنہوں نے قطعی طور پر شہزادہ چارلس کو 1991 میں اپنی والدہ کو تخت چھوڑنے پر مجبور کرنے کے بارے میں واضح طور پر مشورہ نہیں دیا تھا، کا کردار ’دی کراؤن‘ میں جونی لی ملر نے کردار ادا کیا ہے۔ یہ اداکار اس قدر واضح طور پر اچھا دکھائی دیتا ہے کہ اگر انہیں عجیب و غریب چشمے اور فلاپی گرے وگ بھی پہنا دیں تو ان کی دلکشی ماند نہیں پڑتی۔

نامناسب جنسی پن دی کراؤن کی مہارت ہے۔ یہ ایک ایسا شو ہے جس کے خیال میں مشہور مارگریٹ تھیچر کا کردار ادا کرنے کے لیے بہترین اداکارہ گیلین اینڈرسن تھیں، جن کی واضح جنسی اپیل ایک شہوت انگیز لوک کہانی کی طرح نسلوں تک آگے بڑھی ہے۔

پرنس چارلس کا کردار کپڑوں سے الرجک رہنے والے جوش او کونر اور نئے سیزن میں ڈومینک ویسٹ نے ادا کیا ہے، اگر وہ کبھی ایٹن گئے ہیں۔

کمیلا پارکر باؤلز کا کردار دلکش اداکارہ ایمرلڈ فینیل نے ادا کیا اور اس سیزن میں یہ کردار اولیویا ولیمز نبھا رہی ہیں۔ اولیویا وہ اداکارہ ہیں، جن کی خوبصورتی کے متعلق بروس ویلس جیسے اداکار نے کہا تھا کہ جب فلم ’دی سکستھ سینس‘ میں وہ ان کے انتہائی قریب تھیں، تو انہیں اپنے آپ کو یقین دلانا پڑا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔

یہ کہا جانا چاہیے کہ دی کراؤن میں موجود اداکاروں کی جسمانی کشش کا اس کے مجموعی معیار پر قطعی طور پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ٹیلی ویژن کی سب سے اچھی سیریز میں سے ایک رہی ہے اور اس کے اداکار امیر اور طاقتور ہونے کے احساس، جذباتی ڈرامے اور طویل سیریز کے درمیان کام کرتے ہیں۔

لیکن مجھے اس سال دی کراؤن کے اس قدر متنازع ہونے پر فکر ہونے لگی ہے۔ ٹونی بلیئر سے لے کر ڈیم جوڈی ڈینچ تک ہر ایک نے اس میں حقیقی واقعات کو ڈرامائی شکل دینے کی مذمت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ملکہ کی موت ہوچکی ہے اور ہر ایک کو وجودی طور پر مجرمانہ احساس دلایا جائے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں موجود ہر کوئی بہت پرکشش (Hot) ہے۔

مجھے یہاں فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ جنسی اپیل کا یقیناً جسمانی کشش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب جنسی کرشمے کی بات آتی ہے تو کرہ ارض پر جمالیاتی طور پر سب سے خوبصورت لوگ مکمل طور پر برے ہو سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی ایسا شخص جو کبھی امریکی فیشن میگزین ’ووگ‘ کے سرورق پر نظر نہیں آتا لیکن کسی بھی کمرے میں با آسانی سب سے زیادہ ہاٹ شخص ہوسکتا ہے۔

مکمل تاریخ میں شاہی خاندان کے بہت سے افراد روایتی طور پر بہت خوبصورت رہے ہیں، لیکن ان کے ساتھ بہت سی قابل نفرت چیزوں کو بھی موسوم کیا جاتا ہے جیسے وراثت میں ملی دولت، پرنس اینڈریو کا معاملہ، نوآبادیاتی حکمرانی اور دیگر چیزیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ پرکشش کیا ہے؟ بات چیت، تکرار، مزاح، لیکن ان سب چیزوں کو کم از کم ان میں سے نکال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ شاہی زندگی کے ’قواعد‘ ہیں۔اس میں جو کچھ دیکھا جا سکتا ہے، وہ ایک باوقار خاموشی ہے، ایک دوسرے میں پیوست ہونٹ اور بہت سارا ٹویڈ کپڑا۔ 

اس شو میں سیاسی بے حسی کچھ زیادہ واضح ہے۔ کوئی بھی اچھا صارف یہ جانتا ہے کہ سیاسی جھکاؤ کسی طرح جنسی کشش پیدا کرتا ہے یا ختم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ’ڈشی رشی‘ کی وہ تمام دم توڑتی چیخیں دو سال پہلے کسی بیمار کے پیالوں کی طرح گر گئیں۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی کتنا ہی اچھا نظر آتا ہے، اگر وہ محروم علاقوں سے فنڈز کو امیروں میں پمپ کرنے کے لیے دوبارہ تقسیم کر رہے ہیں، تو آپ اجتناب کی حد تک پہنچنے والے ہیں۔ چنانچہ دی کراؤن دو ٹوری وزرائے اعظم کو FHM ’s Sexiest Woman in the World 1997 کی شکل میں سکرین پر لا رہا ہے اور ایک وقت کی مسٹر انجلینا جولی بھی جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں، جو کہ ایک موزوں عمل نہیں ہے۔

اور میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن سوچ سکتا ہوں کہ شاید کیا یہ دی کراؤن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رنگین مزاج ساکھ کی وجہ ہے۔ چونکہ یہ 2016 میں شروع ہوا تھا، دی کراؤن بڑی حد تک شاہی تاریخ کے حقائق پر قائم ہے، بس قدرتی طور پر ان میں تھوڑا سا اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک نیٹ فلکس ڈراما سیریز ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی تاریخ دان لوسی ورسلی شاید ہر چند منٹوں میں یہ بتانے کے لیے سکرین پر نہ گھومے کہ فلاں فلاں پوش شخص نے 30 سال پہلے واقعی فلاں فلاں کام کیا تھا، لیکن دی کراؤن، زیادہ تر سچائی کو درست طریقے سے دکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف مصنف پیٹر مورگن کی پیداوار ہے بلکہ محققین، ذرائع اور تاریخ دانوں کی ایک بڑی ٹیم ہے۔ یہاں تک کہ شو میں کچھ اور بھی عجیب و غریب مناظر بظاہر واقعی رونما ہوئے تھے، جیسے ڈیانا کی بکنگھم پیلس کے ارد گرد ڈوران ڈوران گانے پر رولر سکیٹنگ۔

پھر بھی یہ خیال برقرار ہے کہ دی کراؤن ایک قسم کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پروپیگنڈا مشین ہے، جو پیچیدہ اور وسیع جھوٹ پر بنائی گئی ہے یا یہ ایک ’بدنیتی پر مبنی افسانہ‘ ہے، جیسا کہ جان میجر پچھلے مہینے بڑبڑائے تھے، لیکن میجر کے دفاع میں، کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ دی کراؤن مبہم بکواس تھا۔ اگر آپ نے اصل میں شو نہیں دیکھا ہوتا اور صرف یہ دیکھا ہوتا کہ یہ کاسٹ کتنی پرکشش ہے؟ یقینی طور پر ایک شو جس میں اصل جیمز بانڈ  ٹموتھی ڈالٹن اداکاری کرتے ہیں اور شہزادی مارگریٹ کی عظیم محبت بنتے ہیں تو اس سے ڈرامے نے سچائی کے دوسرے حصوں سے بھی انحراف کیا ہوگا؟

دی کراؤن شاید اس قسم کی غلط تنقید کی وجہ سے رخ تبدیل کر رہا ہو۔ وہ پہلے ہی نئے سیزن میں ایک ’افسانہ نما ڈرامائیت‘ کا ڈس کلیمر شامل کرنے پر راضی ہو چکے ہیں۔ آگے جو بھی ہو؟ جونی لی ملر کو آٹے کے تھیلے کے ساتھ دوبارہ کاسٹ کریں؟ صرف جنسی مقناطیسیت کو کم کرنے کے لیے؟ ہمیں اس کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ دی کراؤن ہماری جان لے سکتا ہے، لیکن وہ ہمارے عجیب و غریب محبت پر مبنی احساست کبھی نہیں کم کرسکے گا۔

'دی کراؤن' سیریز نیٹ فلکس پر چل رہی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی