میجر لاریب قتل کیس: عدالت نے ملزمان کو بری کیوں کیا؟

‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ایس جی کمانڈو میجر لاریب کے قتل کیس میں ملوث ملزمان کو آٹھ نومبر کو بری کردیا تھا۔ اس کیس کا ابھی تفصیلی تحریری فیصلہ نہیں آیا تاہم سوشل میڈیا پر اس بریت کے حوالے سے بحث جاری ہے۔

میجر لاریب 21 نومبر 2019 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں راہزنوں کے ہاتھوں ڈکیٹی کی واردات کے دوران قتل ہوئے تھے (تصویر: قریبی دوست)

‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین سال قبل وفاقی دارالحکومت میں قتل ہونے والے ایس ایس جی کمانڈو میجر لاریب کے کیس میں ملوث ملزمان کو آٹھ نومبر کو بری کردیا تھا۔ اس کیس کا ابھی تفصیلی تحریری فیصلہ نہیں آیا تاہم سوشل میڈیا پر اس بریت کے حوالے سے بحث جاری ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کیس میں عدالت عالیہ نے کیا ریمارکس دیے تھے اور اب پولیس کا کیا موقف ہے۔

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ پانچ اکتوبر کو جب ‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ محفوظ کیا تھا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ملوث ملزمان کی بریت کے حوالے سے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اس کیس کی تفتیش ہی نہیں ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ اسلام نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کون ذمہ دار ہے اس ساری انویسٹی گیشن کا، جو اس قتل کیس میں ہوئی ہی نہیں۔ ساری تفتیش ایسے ہے جیسے ہوا میں ہوئی ہے۔‘

میجر لاریب 21 نومبر 2019 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں راہزنوں کے ہاتھوں ڈکیٹی کی واردات کے دوران قتل ہوئے تھے۔ اس قتل کے الزام میں ملزمان بیت اللہ اور گل صدیق کو پانچ دسمبر 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا اور 15 دسمبر 2020 کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ملزمان کو سزا سنائی تھی۔

ملزمان نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، جس پر سماعت کے بعد عدالت نے پانچ اکتوبر 2022 کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو گذشتہ روز (آٹھ نومبر) کو سناتے ہوئے عدالت عالیہ نے ملزمان کو بری کرنے کا حکم سنایا۔

قتل کے مجرموں کو بری کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟

رواں برس پانچ اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرتے وقت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’‏ایک ایس ایس جی کا میجر قتل ہوا ہے، اس کی انویسٹی گیشن کرے گا؟ قانون یہ ہے کہ جو پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران کام نہ کرے اس پر سزا ہے۔ کیوں نہ اس وقت کے ایس ایس پی اور تفتیشی افسر کو ذمہ دار قرار دے کر سزا دیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے تفتیش کے حوالے سے اہم سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’تفتیشی افسر نے خود خون جمع کیا۔ موقع پر گاڑی بھی نہیں ہے، یہ ساری چیزیں ہیرا پھیری (Manipulation) میں آتی ہیں۔ کیسے پتہ چلا کہ بیت اللہ ملزم ہے۔ ڈیڈ باڈی پمز کیسے پہنچی؟ وہاں بتایا گیا کہ روڈ ایکسڈنٹ کا کیس ہے۔‘

دوران سماعت ایس ایس پی انویسٹی گیشن فرحت عباس کاظمی کو مخاطب کرکے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ‏’آپ کو تو سب پتہ ہونا چاہیے۔ ہمیں کچھ بتائیں تو صحیح کہ اس کیس کو ہم کیسے ہم دیکھیں؟‘

معزز جج نے استفسار کیا کہ ’کوئی تو ایس ایس پی یا قابل افسر اس وقت ہو گا، جس کو چاہیے تھا کہ وہ اس کو دیکھتا؟ ‏جو سائٹ پلان بنایا گیا ہے اس میں گاڑی موجود ہی نہیں۔ (کیس کے سلسلے میں گرفتار) خاتون کہتی ہیں کہ انہیں اسی روز گرفتار کیا گیا جبکہ تفتیشی افسر نے کہا کہ تین روز بعد گرفتار کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سوالات پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن فرحت عباس کاظمی نے عدالت عالیہ کو بتایا تھا کہ ’کچھ چیزیں ٹھیک کرنی ہوں گی۔ کوشش کریں گے کہ ٹھیک ہوں۔ ایک افسر کبھی کہاں ہوتا ہے اور کبھی کہیں تعینات ہوتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت کون سی سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم تھی۔ ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوگی۔‘

جس پر ‏چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ان کے خلاف صرف محکمانہ نہیں بلکہ کریمنل کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جو دو لوگ آپ نے اندر کیے ان کی ذمہ داری بھی ہماری ہے کہ کیوں وہ اندر ہوئے۔ ہمارے پاس تو اپیل آئی ہوئی ہے۔ ہم نے اس کا فیصلہ کرنا ہے۔ شناخت پریڈ بھی صرف ٹوٹل پورا کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ اس کی توجیہہ آپ کیسے کریں گے؟‘

جسٹس اطہر من اللہ ‏نے ریمارکس دیے تھے کہ ’دو لوگ جیل کے اندر ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں، ان کا کیا قصور تھا؟ یہ کیسے پتہ چلا کہ گولی بیت اللہ نے ماری؟ ثبوت کہاں ہیں؟ عدالت بلاوجہ کسی کو مزید اندر رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔‘

گرفتار مجرموں کو کتنی سزا ہوئی تھی؟

15 دسمبر 2020 کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے میجر لاریب کے قتل کے الزام میں بیت اللہ کو سزائے موت جبکہ گل صدیق کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بیت اللہ اور گل صدیق کو پانچ پانچ لاکھ میجر لاریب کے اہل خانہ کو ادا کرنے جبکہ پانچ پانچ لاکھ جرمانے کی مد میں جمع کروانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ اس طرح کُل ملا کر دونوں مجرموں کو دس، دس لاکھ روپے کا جرمانہ عائد ہوا۔

مجرموں کے قبضے سے میجر لاریب کا شناختی کارڈ اور والٹ بھی برآمد کیا گیا تھا، جس سے ڈکیٹی کی واردات میں ان کا ملوث ہونا ثابت ہوا۔

بعدازاں ملزمان نے بریت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

میجر لاریب کا قتل کب اور کیسے ہوا؟

پولیس دستاویزات کے مطابق میجر لاریب 21 نومبر 2019 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں راہزانوں کے ہاتھوں ڈکیٹی کی واردات کے دوران قتل ہوئے تھے۔

دستاویز میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے میجر لاریب اٹک سے اسلام آباد کسی کام کے سلسلے میں آئے تھے۔ قتل کے روز وہ جی نائن پارک میں ایک خاتون دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مجرم بیت اللہ اور گل صدیق، جن کی موٹر سائیکل قریب ہی خراب ہوئی اور انہوں نے اس دوران ڈکیٹی کرنے کا سوچا، انہوں نے پارک میں موجود میجر لاریب پر پستول تان لیا اور والٹ اور فون حوالے کرنے کا کہا، لیکن مزاحمت پر سر پر فائر کر دیا، جس سے میجر لاریب موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

میجر لاریب حسن کون تھے؟

میجر لاریب حسن کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی 122 لانگ کورس سے تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے میجر لاریب اس سے قبل وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر کے آئے تھے۔ ان کے کورس میٹ انہیں ’جنگ کا غازی‘ پکارتے تھے۔

میجر لاریب کی پوسٹنگ اٹک شہر میں تھی اور وہ اسلام آباد کسی کام کی نوعیت سے آئے تھے۔

واقعے کی چشم دید گواہ نے مجرموں کو پہچانا: پولیس حکام

کیس کی حساسیت کے باعث نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو ایک پولیس افسر نے بتایا کہ تفتیش بالکل درست ہوئی ہے اور تفتیش کے مطابق وہی مجرم ہیں، جنہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس افسر نے مزید بتایا کہ ’قتل کے وقت میجر لاریب کے ساتھ موجود خاتون واقعے کی چشم دید گواہ تھیں۔ انہوں نے ملزمان کو دیکھا اور پہچانا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ فرانزک ثبوت، انگلیوں کے پرنٹ، میجر لاریب کے پرس کا ان ملزمان کے پاس سے برآمد ہونا ثبوت ہیں جبکہ میجر لاریب کے پرس میں ان کا شناختی کارڈ بھی تھا جو ان دو افغان باشندوں سے برآمد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا تحریری تفصیلی فیصلہ آنے کا انتظار ہے اور اس پر اپیل دائر کی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان