انڈیا: گینگ ریپ کے تین مجرموں کی رہائی پر غصے کی لہر

بریت کے فیصلے پر بھارت میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور سماجی کارکنوں اور مبصرین نے بھارت میں زیادتی کے مقدمات میں انصاف کی فراہمی پر سوالات اٹھائے ہیں۔

سٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا اور آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کے کارکن چار اگست 2021 کو نئی دہلی میں ایک نو سالہ بچی کے مبینہ ریپ اور قتل کے خلاف احتجاج کے دوران پلے کارڈز تھامے ہوئے ہیں (اے ایف پی/پرکاش سنگھ)

انڈیا میں گینگ ریپ کے جرم میں سزا یافتہ تین افراد کو سپریم کورٹ کی جانب سے رہائی ملنے کے بعد دارالحکومت دہلی میں پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ متاثرہ خاتون کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کرے۔

بدھ کو دہلی کمیشن برائے خواتین (ڈی سی ڈبلیو) نے، جو دہلی کی حکومت کے تحت کام کرتا ہے، وفاقی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس کو یہ نوٹس بھجوایا۔

تین افراد روی کمار، راہول اور ونود کو 2012 میں ایک 19 سالہ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ، تشدد اور قتل کے الزام میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔

2014 میں دہلی ہائی کورٹ نے تینوں کو موت کی سزا سنائی، جس میں جج نے انہیں ’شکاری‘ قرار دیا تھا، جو’شکار کی تلاش‘ میں سڑکوں پر گھومتے تھے۔

اپنے نوٹس میں ڈی سی ڈبلیو نے کہا کہ انہوں نے خاتون کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے ازخود نوٹس لیا ہے اور دہلی پولیس کمشنر کو خط لکھ کر اس خاندان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں معلومات طلب کی ہیں۔

ڈی سی ڈبلیو کا یہ اقدام انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے چھاولا گینگ ریپ کے نام سے مشہور کیس میں تینوں مجرموں کو بری کرنے کے دو دن بعد سامنے آیا۔

تینوں افراد نے مبینہ طور پر اتراکھنڈ کے ضلع پوڑی گڑھوال سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو اس وقت اغوا کیا تھا، جب وہ گروگرام کے سائبر سٹی میں ملازمت سے لوٹ رہی تھی۔

وہ اس خاتون کو دہلی سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ریاست ہریانہ کے روڈھائی گاؤں لے گئے، جہاں انہیں ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس یو یو للت، جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی پر مشتمل بینچ نے ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کر دیا اور مقدمے کی سماعت کے دوران ’واضح خامیوں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے مجرموں کو رہا کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متاثرہ خاتون کے والد نے کہا ہے کہ وہ تینوں مجرموں کو بری کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق انہوں نے کہا: ’ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے جس میں تینوں ملزمان کو بری کیا گیا۔ ہم فیصلے پر نظرثانی کرنے کے لیے اپیل کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور جلد ہی دائر کریں گے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم تینوں کے لیے موت کی سزا چاہتے ہیں۔ تمام مجرموں کو پھانسی دی جانی چاہیے۔۔ تبھی میری بیٹی کو انصاف ملے گا۔‘

بریت کے فیصلے پر بھارت میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور سماجی کارکنوں اور مبصرین نے بھارت میں زیادتی کے مقدمات میں انصاف کی فراہمی پر سوالات اٹھائے ہیں۔

متاثرہ خاندان کے ساتھ کام کرنے والی یوگیتا بھیانا نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ انڈیا میں ایک سیاہ دن ہے۔

اگست 2022 میں ریاستی حکومت نے ان 11 افراد کو رہا کردیا تھا، جنہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ خاتون بلقیس بانو کا گینگ ریپ کیا اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا۔

نئی دہلی میں سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری نے کہا: ’ہم زیادتی کا نشانہ بننے والوں کو انصاف دلانے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ چھاولا زیادتی کیس میں زیادتی کرنے والوں کو ثبوتوں کی بنیاد پر موت کی سزا دی گئی تھی۔ اس سزا کو ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا تو سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟ خواتین انصاف کے نظام پر کیوں یقین کریں؟ زیادتی کرنے والے کھلے گھوم رہے ہیں۔‘

اگست میں جاری وفاقی حکومت کے سالانہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر چار لاکھ 28 ہزار 278 مقدمات درج ہوئے، جو 2020 کے مقابلے میں 15.3 فیصد زیادہ ہیں، جب تین لاکھ 71 ہزار 503 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔

ریکارڈ کے مطابق ’خواتین کے اغوا اور اٹھائے‘ جانے کے 17.6 فیصد اور ’زیادتی‘ کے 7.4 فیصد کیسز رہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین