کوئٹہ: خواتین کا سو سال پرانا ’پردہ کلب‘

کلب کی جنرل سیکرٹری کہتی ہیں کہ ’سو سال سے قائم اس کلب کے برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی سیاست شامل نہیں ہے۔‘

یہ سال 1921 کی بات ہے جب متحدہ ہندوستان پر سلطنت برطانیہ کی حکومت تھی اور بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ کئی انگریز خاندانوں کا مسکن تھا۔

ان انگریزوں میں تین خواتین بھی شامل تھیں، جن کے نام مسز بال، مسز سٹیورٹ اور مسز کورڈوزر تھے۔

ان خواتین نے فیصلہ کیا کہ کوئٹہ میں خواتین کے لیے کوئی جگہ بنائی جائے، جس کے بعد انہوں نے مسز کورڈوزو کے گھر پر اس کلب کا افتتاح کیا۔

یہ مقام اس وقت اس سڑک پر واقع تھا، جہاں پر پہلے فروٹ مارکیٹ اور اب بلدیہ پلازہ کی عمارت قائم ہے۔

1921 کے آخرمیں سر آرمن ڈیو بلوچستان کے ایجنٹ ٹو گورنر جنرل (اے جی جی) مقرر ہوئے تو ان کی ان کی اہلیہ نے اس کلب کی صدارت سنبھالی اور اس ادارے کو منظم کیا۔

اس وقت یہ ایک بنگلہ تھا جسے ایک ٹھیکے دار رائے بہادر کرم چند نے 36 ہزار کے عوض خرید کر لیڈی آرمن ڈیو کو خواتین کے لیے پیش کیا۔

چنانچہ اس کلب کا نام لیڈی ڈیو پردہ کلب رکھا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔

اس کلب کے مقاصد تعمیری اور تفریحی تھے کیونکہ اس وقت خواتین گھر کی چاردیواری تک محدود تھیں اور رسومات کی وجہ سے آپس میں ملنا جلنا کم ہوتا تھا۔

اس کلب کے قیام کے بعد مختلف قبائل، مذاہب اور مکتبہ فکر کی خواتین کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا تھا۔ 1935 کے تباہ کن زلزلے نے جہاں کوئٹہ کو مکمل تباہ کر دیا تھا وہیں پردہ کلب کی عمارت بھی اس زلزلے سے محفوظ نہ رہ سکی۔

اس وقت کی حکومت نے سنڈیمن ہسپتال تعمیر کرنے کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ جگہ کم پڑ رہ تھی جس پر حکومت نے صدر پردہ کلب سے درخواست کی کہ اگر پردہ کلب کی زمین ہسپتال کو دی جائے تو وسیع رقبے پر ہسپتال بن سکتا ہے اور اس کے بدلے میں کلب کو متبادل جگہ دے دی جائے گی، جس پر کلب کے اراکین نے اس تجویز کو مان لیا اور اس طرح موجودہ پردہ کلب انسکمب روڈ پر متبادل جگہ پر منتقل کردیا گیا جو ابھی تک قائم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلب کی جنرل سیکرٹری مسز بشریٰ کمال کہتی ہیں کہ ’سو سال سے قائم اس کلب کے برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی سیاست شامل نہیں ہے۔ یہاں پر آنے والے تمام خواتین ایسے ہیں جیسے وہ ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یہ ادارہ کوئی پروگرام خود نہیں کرتا بلکہ اس میں ہم خواتین سے متعلقہ اداروں کو بھی شامل کرتے ہیں۔‘

بشریٰ کہتی ہیں کہ ’اس کلب میں جتنے بھی پروگرام ہوتے ہیں، ان کے لیے ارکان خود دل کھول کر پیسے دیتے ہیں۔ ہمیں آج تک کسی ادارے اور حکومت نے کوئی فنڈ نہیں دیا۔ یہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے۔‘

مسز ثریا اللہ دین جو اس کلب کی تین بار جنرل سیکرٹری رہ چکی ہیں، اس کلب کے حوالے سے شائع کیے گئے کتابچے میں لکھتی ہیں کہ ’1965 میں فرید اللہ شاہ کمشنر کوئٹہ کی اہلیہ نے بحیثیت صدر کلب کی اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور فرید اللہ شاہ کے تعاون سے یہ عمارت تعمیر ہوئی۔

’اس عمارت میں ایک ہال، کچن اور سٹور بنایا گیا۔ اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی اے آر صدیقی نے کام کی نگرانی کی اور یوں گائیڈ ہاؤس سے کلب کی تقریبات اس کی اپنی عمارت میں منتقل ہوئیں۔‘

ثریا اللہ دین لکھتی ہیں کہ ’لیڈیز پردہ کلب کے 1992 کے اندراجات کے مطابق اراکین کی تعداد 90 ہے۔ ہر ممبر سالانہ ایک سو روپیہ چندہ ادا کرتا ہے۔ ماہانہ ٹی پارٹی کے لیے الگ سے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’کلب کے پروگراموں میں فینسی ڈریس شو، فیشن شوز، زیبائش و آرائش گل کے مقابلے، پکوانوں کے مقابلے، سالانہ پکنک، محفل موسیقی، افطار پارٹی، عید ملن پارٹی، جشن آزادی کی تقریبات، سالانہ محفل میلاد کے علاوہ ختم قرآن پاک و سیرت کانفرنس منعقد کی جاتی ہیں۔‘

پردہ کلب کے کتابچے میں بتایا گیا کہ ’اس کلب کو محکمہ سماجی بہبود نے 1978 میں غیر سرکاری تنظیم کے طور پر باقاعدہ رجسٹرڈ کیا۔ اس کلب نے بہت سے فلاحی اور سماجی تنظیموں کو جنم دیا۔ جن میں اپوا بلوچستان، ہیلپرز ایسوسی ایشن، قلم قبیلہ، چلڈرنز اکیڈمی، بلوچستان ویمن ہاکی ایسوسی ایشن اور لائنز کلب شامل ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین