فیصلے کی گھڑی

آئندہ چند دن اس لیے اہم ہیں کہ ایک طرف آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ حکومت کے سر پر ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کا لانگ مارچ بھی اسلام آباد آن پہنچا ہے۔

جب سے شہباز شریف لندن سے واپس آئے ہیں، وہ کرونا کا شکار ہونے کی وجہ سے سیاسی منظر عام سے غائب ہیں (وزیراعظم شہباز شریف آفیشل فیس بک اکاؤنٹ)

جیسے جیسے نومبر اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا رہے، اسی طرح پاکستان کی سیاست کا پارہ بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق نئی نئی افواہیں گردش میں آرہی ہیں۔ ایک طرف اہم تعیناتی کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں بھاگ دوڑ مچی ہوئی ہے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ بھی وفاقی دارالحکومت کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

غرض یہ کہ ملکی سیاسی صورت حال عجیب مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔

سب سے پہلے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، اس وقت تک عمران خان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ وہ ہفتے کے روز راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کریں گے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ دے بھی دیں تو اس سے موجودہ سیاسی صورت حال پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا عمران خان جو تاریخ دیں گے، اس کا  آرمی چیف کی تعیناتی سے کوئی تعلق بنتا ہے؟

لانگ مارچ گذشتہ ایک ماہ سے جاری ہے اور اس دوران ایک دلخراش واقعے کے نتیجے میں تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان بھی زخمی ہوئے، جس کے باعث لانگ مارچ کو کچھ دنوں کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔ اب یہ لانگ مارچ ایک دفعہ پھر اسلام آباد کی جانب گامزن ہے اور اس میں گذشتہ ایک  دو روز میں کافی تیزی دیکھی گئی ہے۔

عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے اور اہم تعیناتی کے حوالے سے پیشرفت میں مماثلت کافی معنی خیز ہے اور اسی تناظر میں مختلف سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔

کیا لانگ مارچ کے ذریعے پی ٹی آئی صرف جلد انتخابات کا مطالبہ منوانے آرہی ہے یا اس کے مقاصد کچھ اور ہیں؟ کیا تحریک انصاف لانگ مارچ سے حکومت پر دباؤ ڈال پائے گی؟ کیا تحریک انصاف اور حکومت میں کوئی جھڑپ ہوسکتی ہے؟ اور اگر اس طرح کا واقعہ ہو بھی جائے تو اس سے عمران خان کو کچھ حاصل ہوگا یا حکومت اس صورت حال سے فائدہ اٹھائے گی یا پھر اس پورے منظر نامے سے کوئی اور مستفید ہوگا؟ اور اس ساری صورت حال کے بعد پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ کیا ہوگا؟

موجودہ حالات میں جہاں ایک طرف آرمی چیف کی تعیناتی میں مسلسل تاخیر سے کئی افواہیں جنم لے رہی ہیں، وہیں دوسری طرف حکومت نے اس حوالے سے سارے پتے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں کچھ بھی ممکن ہے۔

پیپلز پارٹی نے بھی موجودہ صورت حال میں بالآخر اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے گذشتہ دنوں اس اہم تعیناتی پر اپنی پارٹی کا ایک اہم مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا، جس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو سمیت پارٹی کی سینیئر قیادت شریک تھی۔

اس وقت ملک بھر میں صرف یہی ایک موضوع  زیر بحث ہے کہ کون ہوگا نیا سپہ سالار؟ کیا حکومت افواج پاکستان کی جانب سے دی گئی لسٹ میں سے کسی کو منتخب کرے گی یا موجودہ آرمی چیف کو ایک دفعہ پھر ایکسٹینشن دی جائے گی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت صورت حال انتہائی غیر یقینی کا شکار ہے اور ماسوائے چند لوگوں کے کسی کو پتہ نہیں کہ آئندہ چند دنوں میں کیا ہوگا۔

اس حوالے سے صدر مملکت عارف علوی پر بھی بہت سی نظریں جمی  ہوئی ہیں۔ اگر آئینی طور پر دیکھا جائے تو صدر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں لیکن اہم تعیناتی میں ان کا کردار کیا ہوگا، یہ انتہائی معنی خیز ہے۔

ویسے تو آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے، ان کی مرضی کہ وہ جسے چاہے تعینات کریں اور اس تعیناتی میں صدر کے مشورے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدر سے ملاقات اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں بڑی معنی خیز ہے۔ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری کی اسلام آباد میں موجودگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اڑتی اڑتی افواہیں یہ بھی آ رہی ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا اور اس سلسلے میں گذشتہ چند گھنٹوں میں پے درپے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری جانب عمران خان کی جانب سے بھی اس حوالے سے دباؤ بڑھنے کا اندیشہ ہے لیکن یہ دباؤ کس حد تک مؤثر ہوگا، یہ بتانا مشکل ہے۔ اب یہاں یہ بات آتی ہے کہ وہ ایسا کون سا نام ہے، جس کے لیے ن لیگ مسلسل اصرار کر رہی ہے اور ایسی کیا وجہ ہے جو پنڈی وہ نام دینے سے کترا رہی ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ وفاقی حکومت پر بھی فیصلہ لینے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اس حوالے سے کافی محتاط ہے اور کافی سوجھ بوجھ کے ساتھ یہ اہم تعیناتی کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کی لندن میں سابق وزیراعظم اور پارٹی قائد میاں نواز شریف سے ملاقات کو بھی دیکھنا ہوگا۔

اس ملاقات میں کیا اہم فیصلے ہوئے، یہ ابھی تک مکمل معلوم نہیں ہو پا رہا، کیونکہ جب سے شہباز شریف لندن سے واپس آئے ہیں، وہ کرونا کا شکار ہونے کی وجہ سے سیاسی منظرعام سے غائب ہیں۔ آئندہ چند دن اس لیے اہم ہیں کہ ایک طرف آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ حکومت کے سر پر ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کا لانگ مارچ بھی اسلام آباد آن پہنچا ہے۔

بہرحال فیصلے کی گھڑی تو آن پہنچی ہے، جس میں آئندہ ایک سے دو دن کلیدی کردار رکھتے ہیں اور فیصلہ بھی ایسا، جس سے نہ صرف حکومت بلکہ عمران خان کو بھی سرپرائز ملے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ