موسیٰ خیل: جہاں پتھروں پر کندہ نقوش کو کوئی نہیں سمجھ سکا

موسیٰ خیل کی پہچان یہاں پر موجود تاریخی آثار ہیں، جن کی نہ تو حفاظت کی گئی اور نہ ہی ان کے تاریخی پس منظر کا کوئی سراغ مل سکا۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان قومی شاہراہ این 50 پر سنگر کے مقام پر ایک راستہ جنوب کی جانب ضلع موسیٰ خیل کی طرف الگ ہو جاتا ہے۔

یہ توئی سر کی چراہ گاہ سے ہوتا ہوا سلئی علاقے کو جاتا ہے۔ سلئی پہاڑی سلسلے کے دامن میں ایک سرسبز مگر زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم علاقہ ہے۔

یہاں کے بیشتر مکین آج بھی لکڑی اور گھاس کی بنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔

اس علاقے کی پہچان یہاں پر موجود تاریخی آثار ہیں، جن کی نہ تو حفاظت کی گئی اور نہ ہی ان کے تاریخی پس منظر کا کوئی سراغ مل سکا۔

تاہم مقامی تاریخ دانوں کو یقین ہے کہ اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔

پہاڑ کی چوٹیوں پر بڑے سیاہ پھتروں سے ایستادہ علاقے سلئی پہنچ کر ہماری ملاقات یہاں کے ’معمر ترین‘ شخص ملا موسیٰ جان سے ہوئی، جو نہ صرف ایک قبائلی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ایک مذہبی عالم بھی ہیں۔

موسیٰ جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے بزرگوں کے بقول اس پہاڑی درے میں کئی صدیاں قبل مغل رہتے تھے۔

اپنی منفرد بودوباش اور طرز زندگی رکھنے والے ان قدیم لوگوں نے رہنے کے لیے پرخطر سنگلاخ گھاٹیوں کا سینہ چیر کر اپنے لیے راستے اور لکڑی اور گھاس کے گھر بنائے۔

ان کا انحصار گلہ بانی اور زراعت پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں کھیتی باڑی اور قدیم آبادی کی باقیات اور آثار موجود ہیں۔

’میری عمر 115 سے 120 سال کے درمیان ہے۔ پہلے زمانے میں کمروں کی تعمیر کا رواج نہیں تھا۔ یہاں کے لوگ لکڑیوں اور گھاس سے بنی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔

’اس علاقے میں لوگوں کو پرانے رائج الوقت سکے، روٹی پکانے کا آتش دان اور زمین کو سیراب کرنے میں استعمال ہونے والے اوزار ملے۔‘

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے بعد یہاں مقامی لوگ آباد ہونے لگے اور دوسرے علاقے سے نقل مکانی کرکے یہاں پہاڑوں کے دامن کو اپنا مسکن بنا لیا۔

سلئی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن تاج الدین کا کہنا ہے کہ سلئی حمزہ زئی سطح سمندر سے 6600 فٹ بلندی پر واقع علاقہ ہے، جو 10 ہزار نفوس پر مشمتل ہے۔

اس کے مشرق میں ڈیرہ غازی خان جبکہ شمال میں زمری پلاسین واقع ہے۔

’یہ علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں کئی صدیوں پرانی قبریں اور ہندوؤں کے مردے جلانے کے مقام شمشمان گھاٹ کے آثار آج بھی موجود ہیں۔‘

تاج الدین کے مطابق اس علاقے میں پرانے زمانے میں جنگلی حیات (شیر، چیتے، سلیمان مارخور وغیرہ) پائے جاتے تھے لیکن آبادی بڑھنے اور انسانی نقل وحمل کے باعث اب ناپید ہوچکے ہیں۔

’سلئی کے پہاڑ میں ایک کلومیٹر طویل ایک غارآج بھی موجود ہے، جہاں انسانی آبادی کے آثار دیکھائی دیتے ہیں۔

’یہاں پتھروں پر ایسے الفاظ کندہ ہیں جس کی آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ البتہ پتھروں پر گھوڑوں اور دیگر جانوروں کے تصاویر کندہ کی گئی ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ اس کی تاریخ مغل دور سے جوڑتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس علاقے کی بلندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ پہاڑ کی بلند ترین چوٹی سے دریائے سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقے دیکھے جا سکتے ہیں۔

’ہمارے بزرگوں کے مطابق یہاں ہندو آباد تھے، جن کے مردے جلانے کا مقام اور راکھ اور پتھروں پر آتش کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

’ہندو مذہب کے لوگ جب اپنے مردے کو جلاتے تو ان کے ساتھ مٹکوں میں زیورات رکھتے تھے، جس کا کھوج لگانے اور خزانے کی تلاش میں لوگوں نے مختلف مقامات پر کھدائی کی ہے۔

’آج بھی ان مٹکوں اور مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔'

موسیٰ خیل سے تعلق رکھنے والے ادیب اختر مسرور موسیٰ خیل کے مطابق بلوچستان کے معروف مصنف اور آرکیالوجسٹ رضا بلوچ نے اپنی کتاب میں سلئی کی تاریخ اور یہاں کے تاریخی آثار کے حوالے لکھا کہ اس کی تاریخ بنی نوع انسان کی تاریخ سے ملتی ہے، جب انسان نے دو پیر پر کھڑا ہونا اور چلنا شروع کیا۔

تاہم مسرور کا کہنا ہے کہ اب تک یہاں سے ایسے شواہد نہیں ملے جس کی رو سے یہاں کی تاریخ کو ہزاروں سال سے جوڑا جا سکے۔

’پندرہویں صدی کے اواخر اور سولہویں صدی کے آغاز میں یہاں انسانی تہذیب و تمدن کے آثار ملے ہیں۔ بلوچ مصنف نے اپنی کتاب میں اس کا ناتا ہزاروں سال کی تاریخ سے جوڑا ہے۔

’تاہم یہاں دریافت ہونے غاروں اور ملنے والے آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ مغل سلطنت سے ملتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم میرحسن خان اتل نے، جو بلوچستان کی تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ سلئی کی تاریخ صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہاں سے سٹون ایج کا خاتمہ ہو چکا ہے،جبکہ مغلوں کی تاریخ چند سو سال قبل ہے۔

’پتھروں پر بنے نشانات کا تعلق مغل دور سے نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی تہذیب سے ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: 'ہمارا المیہ یہ ہے کہ لوگ ہرتاریخی مقام یا تاریخی آثار کا تعلق مغل دور سے جوڑتے ہیں۔

’ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق انسان کی چار سے دو پیروں پر کھڑے ہونے کی تاریخ کا آغاز بھی یہاں سے ہوتا ہے۔ یہاں جو فوسلز ملے ہیں، ان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔'

موسیٰ خیل کا شمار بلوچستان کے پسماندہ اور غریب اضلاع میں ہوتا ہے۔ اس کی سرحدیں لورالائی، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان سے ملتی ہیں۔

یہ ضلع قدرتی جنگلات سے مالا مال اور گلہ بانی کے لیے بہترین آب و ہوا کا حامل ہے لیکن ذرائع آمدورفت کے فقدان، سڑکوں کی خراب حالت اور دیگر وسائل کی کمی کے باعث یہ علاقہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ترقی نہیں کرسکا۔

یکم نومبر، 1887 کو موسیٰ خیل سمیت تمام علاقہ برطانوی ہندوستان کا حصہ قراردے دیا گیا تھا۔ ژوب ایجنسی 1890ء میں قائم کی گئی اور موسیٰ خیل کے علاقے اس سے منسلک کردیے گئے۔ 1892 میں موسیٰ خیل کو تحصیل کا درجہ ملا، تاہم اکتوبر1903ء میں لورالائی ضلع میں ضم کر دیا گیا۔ یکم جنوری، 1992 کو موسیٰ خیل ضلع بن گیا۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ