مشرف حملہ کیس میں سزا یافتہ مجرم سپریم کورٹ سے رہا

سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر حملے میں ملوث رانا نوید کی سزا مکمل ہونے پر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

ایک شخص یکم اپریل، 2014 کو راولپنڈی میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پوسٹر کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے پیر کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر حملے میں ملوث رانا نوید کی سزا مکمل ہونے پر اُنھیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے آج رانا نوید کے وکیل حشمت حبیب نے دلائل میں کہا کہ اُن کے موکل کی عمر قید کی سزا مکمل ہونے کے باوجود اُنھیں رہا نہیں کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رانا نوید کی عمر قید کی سزا 14 سال بنتی تھی جب کہ اُن کے موکل کو جیل میں قید ہوئے تقریباً 20 سال ہو چکے ہیں۔

رانا نوید کو دسمبر 2003 میں سابق فوجی صدر پر ہونے والے حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

2005 میں فوجی ایپلٹ ٹربیونل نے رانا نوید کو موت کی سزا سنائی تھی جبکہ 2013 میں سپریم کورٹ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران ان کی موت کی سزا تو ختم کر دی تاہم ملٹری ٹرائل کورٹ کی طرف سے رانا نوید کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا گیا تھا۔

پرویز مشرف پر حملے کب اور کہاں ہوئے؟

جنرل پرویز مشرف پر 14 اور 25 دسمبر 2003 کو راولپنڈی میں دو قاتلانہ حملے کیے گئے تھے، جن کے الزام میں کل 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ان میں سے آٹھ افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے 14 دسمبر کو راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں ایک پل کو اس وقت بم سے نشانہ بنایا جب جنرل مشرف کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا، اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

جب کہ دیگرآٹھ  ملزمان پر راولپنڈی ہی کے علاقے میں جھنڈا چیچی کے نزدیک دو مختلف پٹرول پمپس کے قریب جنرل مشرف کے قافلے پر خودکش حملوں کا الزام تھا جس سابق صدر تو محفوظ رہے لیکن خودکش حملہ آوروں سمیت 12 افراد مارے گئے تھے۔

جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے دو کا تعلق فوج جب کہ چھ کا پاکستان فضائیہ سے تھا جب کہ دیگر گرفتار افراد سویلین تھے۔

حملے کے جرم میں گرفتار افراد میں سے ایک پاکستانی فوج کے سپاہی اسلام صدیقی کو2005 میں ملتان جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی، جب کہ ایئرفورس سے ہی تعلق رکھنے والے سینئر ٹیک کرم دین اور جونیئر ٹیک نصراللہ کو عمر قید جب کہ ایک سویلین عدنان خان کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

سابق صدر پر حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزا پانے والے 12 افراد میں فوج کے نائیک کے علاوہ ایئرفورس کے چار اہلکار شامل تھے۔

انگریزی ماہ نامہ ہیرالڈ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 25 دسمبر کے حملے کے لیے رانا نوید کے اے ڈی بی پی کالونی میں واقع فلیٹ میں اسلحہ رکھا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیس کا پس منظر

ایک فوجی سمیت پانچ افراد کو 2003 میں صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کی کوشش میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے اس وقت کہا تھا کہ فوج کے ایک نچلے درجے کے رکن اور چار عام شہریوں کو چند روز قبل سزا سنائی گئی تھی۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس عدالت نے کیس کی سماعت کی۔

یہ سزائیں 2003 کے کرسمس کے دن سے متعلق ہیں، جب راولپنڈی میں دو خودکش حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی مشرف کے قافلے سے ٹکرا دی تھی۔

فوج کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’پانچ افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ سزا پانے والے سپاہی کا نام نائیک ارشد محمود اور عام شہریوں کے نام زبیر احمد، راشد قریشی، غلام سرور بھٹی اور اخلاص احمد تھے۔

اس سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں مزید تین افراد کو جن میں رانا محمد نوید کو عمر قید، عدنان خان کو 15 سال اور عامر سہیل کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان