’ایران کرد علاقوں میں بھاری ہتھیار استعمال کر رہا ہے‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران کی جانب سے کرد علاقوں میں مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ سے گذشتہ 24 گھنٹوں میں ایک درجن سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

تہران میں ایک عورت اور مرد 27 اکتوبر 2022 کو سکیورٹی اہلکاروں کے قریب سے گزر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایران کی سکیورٹی فورسز نے کرد آبادی والے اپنے مغربی علاقوں میں پیر کو سخت کریک ڈاؤن کیا جس میں 24 گھنٹوں کے دوران ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

ستمبر 2022 میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ’اخلاقیات‘ پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے مغربی اور شمال مغربی ایران کے کرد آبادی والے صوبے احتجاج کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند روز کے دوران کئی قصبوں میں حکومت مخالف شدید مظاہرے ہوئے ہیں، جن کی بڑی وجہ ان لوگوں کے جنازے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

کرد علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرنے والی ناروے میں قائم تنظیم ہینگا نے کہا ہے کہ ایرانی فورسز نے اتوار سے پیر تک پیران شہر، ماریوان اور جوانرود شہروں میں گولہ باری کی۔

اس تنظیم نے براہ راست فائرنگ کی آواز کے ساتھ ویڈیوز پوسٹ کیں جو کہ بھاری ہتھیاروں کی آوازیں لگتی ہیں۔

ایک خوفناک ویڈیو، جس کا تعلق ہینگا کے مطابق جوانرود سے ہے، میں مقامی لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو گولیوں کی بوچھاڑ میں سڑک سے ایک لاش کو اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اس علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں13 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے سات جوانرود، چار پیران شہر اور دو دیگر مقامات پر ہلاک ہوئے ہیں۔

ہینگا نے بتایا کہ اتوار کو سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ افراد میں 16 سالہ کاروان قدر شکری بھی شامل ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جب اس نوجوان کی لاش مسجد لائی جا رہی تھی تو اس وقت بھی سکیورٹی فورسز نے لوگوں ہر فائرنگ کر دی جس کے نتئجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی فوری طور پر ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر سکی۔

انٹرنیٹ مانیٹرنگ کرنے والی نیٹ بلاکس نامی تنظیم نے پیر کو ٹویٹ کیا کہ حالیہ مظاہروں کے دوران آن لائن سروسز میں ’ایک بڑی رکاوٹ‘ تھی، جب کہ ’بہت سے صارفین کے لیے موبائل انٹرنیٹ منقطع‘ تھا۔

اظہار رائے کی آزادی کے لیے کام کرنے والے گروپ آرٹیکل 19 نے ٹوئٹر پر متنبہ کیا ہے کہ ’انٹرنیٹ کی اس بندش سے متعدد شہر متاثر ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہینگا  نے کہا کہ جوانرود میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ’شدید جھڑپوں‘ کی وجہ سے زخمیوں کے لیے خون کی بھی کمی تھی۔

نیویارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران (سی ایچ آر آئی) نے کہا ہے کہ جوانرود میں ’قتل عام‘ ہو رہا ہے، تصاویر ہیں جن میں ’گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران خون میں لت پت لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جا رہا ہے۔‘

مظاہروں کے اثرات قطر میں بھی محسوس کیے گئے جہاں ایران کی قومی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف اپنا پہلا ورلڈ کپ گروپ میچ کھیلا۔ ایرانی کھلاڑیوں نے اپنا قومی ترانہ نہیں گایا، بلکہ خاموش کھڑے رہے۔

ایران کے مہاباد کی صورت حال پر مسلسل تشویش کے بعد تازہ ترین تشدد ہوا، جہاں انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ایک دن پہلے کمک بھیجی تھی۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اتوار کو ٹویٹ کیا، ’اس بات پر بہت تشویش ہے کہ ایرانی حکام مبینہ طور پر مظاہرین کے خلاف تشدد میں اضافہ کر رہے ہیں، خاص طور پر شہر مہاباد میں۔‘

ہینگا نے فوٹیج پوسٹ کی ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بھاری ہتھیاروں سے لیس سکیورٹی فورسز کی ان گاڑیوں کی ہے جو سنندج شہر سے مہاباد اور قریبی قصبے بوکان کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

ناروے سے تعلق رکھنے والے ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) گروپ نے بھی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز پیران شہر میں مظاہرین کے خلاف براہ راست فائرنگ کر رہی ہیں۔

ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار مارے جانے والے نوجوان کاروان قدر شکری لاش کو دفنانے کے لیے لے جانے پر ان کی والدہ سجدہ کر رہی ہیں۔

حقوق تنظیم کے مطابق سوگواران نے کرد زبان میں نعرے لگائے کہ ’ماں، رونا مت۔ ہم بدلہ لیں گے۔‘

آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں دکھایا گیا  کہ زخمی مظاہرین جوانرود کی سڑک پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے ارد گرد فائرنگ کی مسلسل آوازیں آ رہی ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’وہ نہتے شہریوں کے خلاف تشدد میں شدت لا رہے ہیں۔‘

آئی ایچ آر کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک اور ویڈیو میں کرد آبادی والے صوبائی دارالحکومت کرمانشاہ میں سڑکوں پر لوگ ’(سپریم لیڈر آیت اللہ علی) خامنہ ای مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران کی مذہبی حکومت کے لیے سب سے سنگین چیلنج بن گئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 378 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی فورسز کی طرف سے تشدد سے مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے۔

کرد ایران کے سب سے اہم غیر فارسی نسلی اقلیتوں میں سے ایک ہیں اور ملک کے غالب شیعہ کی بجائے سنی اسلام پر عمل پیرا ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا