ایران میں مہسا امینی کے چہلم پر پولیس کی فائرنگ

ہزاروں افراد مہسا امینی کی قبر کے قریب جمع ہوئے اور ان کے چہلم کے بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

ٹوئٹر پر 26 اکتوبر 2022 کو پوسٹ کی گئی اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون ایک گاڑی کے اوپر کھڑی ہیں جبکہ ہزاروں افراد مغربی ایرانی صوبے کردستان میں مہسا امینی کے آبائی قصبے ساقیز میں واقع آئیچی قبرستان کی طرف جا رہے ہیں تاکہ ان کے چہلم میں شریک ہو سکیں (اے ایف پی)

اطلاعات کے مطابق ایرانی پولیس نے مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں ان کے چہلم میں شرکت کرنے والے مظاہرین پر گولی چلائی ہے جو مبینہ طور پر ’غلط طریقے سے‘ حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد اخلاقی پولیس کی حراست میں انتقال کر گئی تھیں۔

یہ اجتماع ساقیز شہر میں بدھ کو سکیورٹی فورسز کے سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود منعقد ہوا اور ایرانی حکام مہسا امینی کی قبر کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کرنے کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کو روکنے میں ناکام رہے۔

ہزاروں افراد مہسا امینی کی قبر کے قریب جمع ہوئے اور ان کے چہلم کے بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک گروپ اور عینی شاہدین نے بتایا کہ افسران نے شہر میں ہجوم پر براہ راست گولیاں چلائیں اور آنسو گیس استعمال کی۔

22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو موت کے بعد پورے ایران میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ انہیں دارالحکومت تہران میں اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا اور حراستی مرکز میں گرنے کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں۔

ایسی اطلاعات تھیں کہ اہلکاروں نے ان پر تشدد کیا اور ان کا سر گاڑی سے ٹکرا دیا تھا، لیکن پولیس نے اس بات کی تردید کی کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ پولیس کے مطابق ان کی ہلاکت کی وجہ دل کا دورہ تھا۔

ساقیز اور صوبہ کردستان کے دیگر حصوں میں بدھ کو امینی کے چہلم پر تازہ مظاہروں کے امکان کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا تھا۔

ویڈیوز میں ہزاروں سوگواروں کو ایک طویل سڑک پر چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو ایک کھیت اور دریا کے اس پار رکاوٹوں کو عبور کر کے اس قبرستان تک پہنچ رہے ہیں جہاں مہسا امینی دفن ہیں۔

اجتماع میں لوگوں کو ’عورت، زندگی، آزادی‘ اور ’آمر کو موت‘ کے نعرے لگاتے سنا گیا۔ اس کے علاوہ ’غدار گریں گے‘ اور ’کردستان فاشسٹوں کا قبرستان ہو گا‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس اجتماع میں امینی کے خاندان کے افراد موجود تھے یا نہیں۔

خاندان کے ایک قریبی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنٹوں نے ان کے والد پر یہ کہنے کے لیے دباؤ ڈالا کہ وہ کوئی تقریب منعقد نہ کریں۔

ناروے میں مقیم کرد انسانی حقوق کے گروپ ہینگاؤ نے بعد میں ٹویٹ کی کہ سوگواروں نے ساقیز میں صوبائی حکومت کے دفتر کی طرف مارچ کیا تھا اور سکیورٹی فورسز نے زیندان سکوائر میں لوگوں پر فائرنگ کی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک نامعلوم عینی شاہد کے حوالے سے بتایا: ’بلوا پولیس نے قبرستان میں جمع ہونے والے سوگواروں پر گولیاں چلائی۔ درجنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

نیم سرکاری سنا نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ’مہسا امینی کی یادگار پر موجود لوگوں کی ایک محدود تعداد نے ساقیز کے مضافات میں پولیس فورسز کے ساتھ جھڑپ کی اور منتشر ہو گئے۔‘

حقوق انسانی کی تنظیم نے کردستان کے کئی شہروں میں مظاہروں کی بھی اطلاع دی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ماریوان سمیت متعدد مقامات پر براہ راست فائر کا استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سلسلے میں پہلا احتجاج مہسا امینی کے جنازے کے بعد ساقیز میں ہوا تھا، جس میں خواتین نے یکجہتی کے طور پر اپنے سر سے سکارف اتار دیئے تھے۔

یہ مظاہرے 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد ایران کے لیے سب سے سنگین چیلنجوں میں سے ایک میں تبدیل ہوئے۔

ان میں خواتین سب سے آگے رہی ہیں اور اپنے سکارف کو لہرا رہی ہیں، انہیں آگ لگا رہی ہیں اور یہاں تک کہ سرعام اپنے بال بھی کاٹ رہی ہیں۔

ناروے سے تعلق رکھنے والی ایک اور تنظیم ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ کم از کم 234 مظاہرین، جن میں 29 بچے بھی شامل ہیں، سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں مارے گئے ہیں جسے ایران کے رہنماؤں نے غیر ملکیوں کی طرف سے بھڑکانے والے ’فساد‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے طالبات کے احتجاج کے جواب میں دارالحکومت میں لڑکیوں کے ایک سکول کے اندر آنسو گیس فائر کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا