پروین رحمٰن قتل کیس: سندھ حکومت کا ملزمان کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ

محکمہ داخلہ سندھ نے پروین رحمٰن کے خاندان کی جانب سے دائر درخواست پر مقدمے کے ملزمان کو گرفتار کرکے 90 دن کے لیے مزید جیل میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

پروین رحمن کو 13 مارچ 2013 کو منگھو پیر روڈ پر واقع بنارس پل کے قریب اس وقت ایک موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا (تصویرعقیلہ اسماعیل)

سندھ حکومت نے پروین رحمٰن قتل کیس میں سزا پانے والے پانچ مجرمان کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی سزائیں 21 نومبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دی تھیں۔

کراچی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سربراہ پروین رحمٰن قتل کیس کے پانچ ملزمان کی سندھ ہائی کورٹ نے سزائیں کالعدم قرار دیں تھیں اور کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہونے کی شرط پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

محکمہ داخلہ سندھ نے جمعرات کو پروین رحمٰن کے خاندان کی جانب سے دائر درخواست پر سندھ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈینینس 1996 کی دفعہ تین کی شق ایک کے تحت پانچوں سزا یافتہ افراد کو گرفتار کر کے 90 دن کے لیے مزید جیل میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو محکمہ داخلہ سندھ کے حکم نامے کی تقل موصول ہوئی ہے جس کے مطابق: ’سندھ حکومت کو انٹیلیجنس ذرائع سے معلوم ہوا کہ اگر ملزمان کو رہا کیا گیا تو پروین رحمٰن کے خاندان والوں خاص طور پر ان کی بہن عقیلہ اسماعیل کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ملزمان کو گرفتار کرکے 90 دن تک حراست میں رکھا جائے۔‘

55 سالہ سماجی کارکن پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں منگھو پیر روڈ پر واقع بنارس پل کے قریب اس وقت موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جارہی تھیں۔

انہیں گردن میں گولیاں ماری گئیں تھیں۔ ان کے ڈرائیور نے پروین رحمٰن کو شدید زخمی حالت میں عباسی شہید ہسپتال پہنچایا تھا جہاں وہ ابتدائی علاج کے دوران دم توڑ گئی تھیں۔

ان کے قتل کے مقدمے میں 21 نومبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے شواہد مکمل نہ ہونے کی بنیاد پر سزا یافتہ مجرمان کی سزائیں کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

اس پر ان کے خاندان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ملزمان کی رہائی سے خاندان اور اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ میں کام کرنے والے افراد کو شدید خطرہ ہوسکتا ہے۔

پروین رحمٰن کی بہن عقیلہ اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’اگر ملزمان رہا ہوئے تو نہ صرف خاندان کے افراد بلکہ اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ میں کام کرنے والے افراد کو خطرہ ہوسکتا ہے۔‘

عقیلہ اسماعیل نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو ’ایم پی او آرڈیننس 1960 یا ایسے کسی دوسرے قانون کے تحت حراست میں رکھا جائے۔‘

پروین رحمٰن کون تھیں؟

کراچی شہر میں واقع ایک بڑی کچی آبادی سمجھے جانے والے اورنگی ٹاؤن کے باسیوں کو گھروں کی سرکاری رجسٹریشن، پانی کی لائن اور نکاسی آب کا نظام سکھانے کے لیے مشہور آرکیٹیکٹ اور سماجی رہنما پروین رحمٰن سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں 22 جنوری 1957 میں پیدا ہوئیں۔ تعلق ایک بہاری خاندان سے تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 1971 سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ان کا خاندان بنگلہ دیش میں ہی تھا۔

پروین رحمان کی بہن عقیلہ اسماعیل کے مطابق ان کا خاندان فروری 1972 تک بنگلہ دیش میں تھا۔ جب نئے بننے والے ملک کے سپاہیوں نے تینوں بہن بھائیوں کو والدین سمیت گھر سے بے دخل کر کے ایک میدان میں بھیج دیا تھا۔ جہاں مردوں کو جیل اور عورتوں کو ’شیتا لکھیا‘ کے پاس ایک کیمپ میں بھیجا جا رہا تھا اور ان کا خاندان کسی طرح نقل مکانی کرکے کراچی پہنچ گیا تھا۔

پروین رحمان نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی تھی۔ کراچی آنے کے بعد انہوں نے 1981 میں کراچی کے ڈاؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے آرکیٹیک انجئیرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

پروین رحمان نے 1986 میں نیدرلینڈ کے شہر روٹرڈم سے ہاؤسنگ سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ سے رہائش، عمارت سازی اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا۔

پروین رحمان نے 1983 میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی جوائنٹ ڈائریکٹر بن گئیں، 1988 میں جب او پی پی کو چار تنظیموں میں تقسیم کیا گیا تو پروین رحمٰن اورنگی پائلٹ پراجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر بن گئیں۔

1983 سے 2013 تک تین دہائیوں تک پروین رحمٰن کراچی کی کچی آبادیوں اور قدیم گوٹھوں میں واقع سرکاری زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کرنے والے گروہوں، غیرقانونی پانی کے ہائیڈرنٹس چلانے والوں پر تحقیق ان کو عوام کے سامنے لے آئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان