ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہروں میں شامل شخص کو پھانسی

محسن شیکاری نامی شخص پر مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد مظاہروں کے دوران چاقو کے وار سے سکیورٹی گارڈ کو زخمی کرنے اور دارالحکومت تہران کی ایک سڑک بند کرنے کا الزام تھا۔

چار نومبر 2022 کی اس تصویر میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی دارالحکومت تہران میں ایک ریلی کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے۔ ایران نے مہسا امینی کی موت کے خلاف مظاہروں میں شامل ایک شخص کو پھانسی دے دی ہے (اے ایف پی)

ایران میں جمعرات کو ایک ایسے شخص کو سزائے موت دے دی گئی، جس پر مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد مظاہروں کے دوران چاقو کے وار سے سکیورٹی گارڈ کو زخمی کرنے اور دارالحکومت تہران کی ایک سڑک بند کرنے کا الزام تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایران کی نیم سرکاری تسنم نیوز ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ محسن شیکاری نامی شخص کو جمعرات کی صبح پھانسی دی گئی لیکن رپورٹ میں مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔

میزان نیوز ایجنسی نے کہا کہ محسن شیکاری کو 25 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں 20 نومبر کو عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔

ایران میں جاری مظاہروں کے دوران گرفتاری کے بعد یہ پہلی پھانسی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ پھانسی اس وقت سامنے آئی ہے جب دیگر کئی افراد کو بھی احتجاج میں شامل ہونے کے ’جرم‘ میں سزائے موت کا سامنا ہے۔

 16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں جاری احتجاج 1979 میں قیام کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

حکام احتجاج کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ انقلابی گارڈز فورس نے پیر کو عدلیہ کی جانب سے سخت سزاؤں کی تعریف کی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’اسلام اور قوم‘ کی سلامتی کے خلاف ’جرائم‘ میں ملوث افراد کے خلاف جلد اور فیصلہ کن سزائیں دیں۔

دوسری جانب عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ایرانی حکام مزید کم از کم 21 افراد کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے مزید مطالبہ کیا کہ ’ایرانی حکام کو فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں کو ختم کرنا ہوگا۔ ایران کو سزائے موت کے نفاذ سے باز آنا چاہیے اور احتجاج میں شامل گرفتار افراد کے خلاف الزامات واپس لینے چاہییں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دوسرے قیدیوں کو بھی جلد ہی موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق کم از کم ایک درجن افراد کو اب تک مظاہروں میں ان کی شمولیت پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔

اوسلو میں قائم ایک گروپ ’ایران ہیومن رائٹس‘ کے ڈائریکٹر محمود امیری موغدیم نے سوشل میڈیا پر جاری ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’محسن شیکاری کی پھانسی پر (دنیا کا) سخت رد عمل ہونا چاہیے ورنہ ہم روزانہ مظاہرین کو پھانسی کے تختے پر لٹکتا دیکھیں گے۔‘

انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق مظاہروں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 475 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

ایک گروپ کے مطابق ایرانی حکام نے 18 ہزار سے زیادہ مظاہرین کو حراست میں لے رکھا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا