پاکستان کی مغربی سرحد غیر محفوظ ہے؟

نومبر اور دسمبر میں پاکستان کے ساتھ سرحد پر افغانستان کی جانب سے جارحیت کے دو واقعات پیش آئے لیکن طالبان حکومت نے غلطی تسلیم کی اور نہ معافی مانگی۔

11 دسمبر 2022 کو پاکستان کے سرحدی شہر چمن میں طالبان فورسز کی جانب سے مارٹر فائر کیے جانے کے بعد رہائشی جمع ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے 12 دسمبر کو قومی اسمبلی کو بتایا کہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں فائرنگ کے واقعے میں افغانستان کی جانب سے غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگنے کے بعد معاملہ حل ہو گیا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 11 دسمبر کو افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے چمن کی شہری آبادی پر فائرنگ سے چھ مقامی افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے۔

فوج کے مطابق افغان فورسز نے توپ خانے اور مارٹرز سمیت بھاری اسلحے کا استعمال کرتے ہوئے جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔

ویسے تو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن شاید شہری علاقوں پر بھاری اسلحے کا استعمال پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے واقعے پر افسوس کا اظہار تو ضرور کیا، تاہم بیان میں نہ تو معافی کا ذکر کیا اور نہ ہی شہری علاقوں پر فائرنگ اور عام لوگوں کی ہلاکتوں کی غلطی تسلیم کی، بلکہ پاکستان سے ’اشتعال انگیزی‘ کو روکنے کا مطالبہ کیا، جس سے تشدد کا راستہ ہموار ہوتا اور تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔

طالبان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کے اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان اس واقعے کو کس طرح دیکھ رہا ہے۔

بلخی کے بیان میں پاکستان کو ایک لحاظ سے اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

پاکستان اور طالبان حکومتوں نے واقعے سے متعلق بیانات تو جاری کیے، تاہم اس وقت تک یہ نہیں بتایا گیا کہ چمن کا واقعہ کیوں پیش آیا اور اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ یہ رویہ عوام کو تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہے۔ جس کی غلطی تھی اسے تسلیم کرنا چاہیے تھا۔

سرکاری طور پر واقعے کے وجوہات سے متعلق کچھ نہ بتائے جانے کے باوجود پاکستانی ذرائع کے مطابق چمن کے ’باب دوستی‘ گیٹ کے قریب پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے تباہ شدہ باڑ کی دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے باڑ کی تعمیر روکنے کے لیے فائرنگ کی تھی۔   

طالبان کے لیے کسی بھی واقعے پر عوامی سطح پر معافی مانگنا اور پھر اگر معاملہ پاکستان سے متعلق ہو تو ناممکن نہ ہو تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

طالبان حکومت نے 14 نومبر کے واقعے سے متعلق بھی پاکستانی موقف کو تسلیم نہیں کیا تھا، جس میں افغان سرحدی محافظین کے ساتھ موجود ایک افغان اہلکار پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کے بعد فرار ہوگیا تھا۔ فائرنگ کے اس واقعے میں ایک فوجی کی جان چلی گئی تھی، جبکہ دیگر دو زحمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فائرنگ کے بعد حملہ آور آرام سے بھاگ جاتا ہے۔

پاکستان کا موقف تھا کہ فائرنگ کرنے والا شخص طالبان کا رکن تھا، لیکن طالبان اس موقف کی تردید کرتے ہوئے اصرار کرتے رہے کہ وہ نامعلوم شخص تھا۔

یہ موقف اس لیے تسلیم کرنا مشکل ہے کہ ایک عام مسلح شخص کیسے ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے، جہاں صرف دونوں پڑوسی ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے اہلکار موجود ہوتے ہوں۔

ایک مہینے سے کم مدت میں چمن سرحد پر تشدد کے دو واقعات کا رونما ہونا ثابت کرتا ہے کہ معاملات کس حد تک پیچیدہ ہیں۔

چمن کا واقعہ اس لیے خطرناک ہے کہ اس میں طالبان نے چمن شہر پر بھاری اسلحے کا استعمال کیا۔

ممکن ہے کہ بھاری اسلحے کے استعمال کا فیصلہ مقامی طالبان حکام کا ہو، لیکن طالبان کی مرکزی قیادت اور حکومت اس کی ذمہ داری سے کسی بھی صورت بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔

کسی اور ملک میں بھاری اسلحے سے فائرنگ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہو سکتا، لیکن اس واقعے کو افغانستان اور پاکستان دونوں نے اُس طرح سے سنجیدہ نہیں لیا جس طرح اسے لیا جانا چاہیے تھا۔

کابل میں طالبان حکومت کو تقریباً 16 مہینے ہونے والے ہیں۔ اس دوران ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ طالبان حکومت کسی بھی معاملے پر غلطی کو تسلیم نہیں کرتی اور ہر وقت ہر مسئلے پر ’تردید‘ والے موڈ میں ہوتی ہے۔

زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو دنیا بھی طالبان کو سنجیدہ نہیں لے گی۔

طالبان نے اس وقت تک یہ بھی تسلیم نہیں کیا کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کابل کے اس گھر میں موجود تھے، جس کو امریکی ڈرون طیارے نے 13 جولائی کو نشانہ بنایا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے قوم سے خطاب میں الظواہری کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا لیکن طالبان نے اب وقت تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

طالبان کی تردید سے اجتناب کے باوجود دنیا ان کے موقف کو تسلیم نہیں کرتی۔

طالبان حکومت نے کبھی بھی افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی کو بھی تسلیم نہیں کیا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ طالبان داعش یا دولت اسلامیہ گروپ کی افغانستان میں موجودگی کو خطرہ ہی نہیں سمجھتے۔

12 دسمبر کو کابل میں چینی باشندوں کے ایک ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے، جبکہ 2 دسمبر کو کابل میں پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمن نظامانی پر فائرنگ کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی اور اسی روز افغان دارالحکومت میں حزب اسلامی افغانستان کے مرکزی دفتر پر مارے جانے والے حملہ آوروں کے پاس داعش کا جھنڈا بھی موجود تھا۔

حملہ آور حزب اسلامی کے سربراہ انجینیئر گلبدین حکمت یار، جو مرکزی دفتر کی مسجد میں نماز جعمہ پڑھاتے ہیں، تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو پائے تھے اور حزب اسلامی کے محافظین نے دونوں حملہ آوروں کو مار ڈالا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گلبدین حکمت یار کے مطابق دونوں حملہ آور تاجکستان سے تھے، جبکہ چینی باشندوں کے ہوٹل پر حملہ آوروں سے متعلق بھی تاجک ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ دونوں کو حملے سے پہلے ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔

داعش میں غیر ملکیوں کی شمولیت اس لیے بھی خطرناک ہے کہ اس گروپ کے شدت پسندوں کے لیے اس وقت افغانستان کارروائیوں کے لیے بھرتی کا مرکز بن چکا ہے، جو طالبان کے لیے ایک چیلنج ہے۔

دسمبر میں اس وقت تک تین ’ہائی پروفائل‘ حملے کر کے داعش نے افغانستان میں اپنا وجود ثابت کر دیا ہے اور اسی طرح ایک لحاظ سے طالبان کے اس موقف کی تردید بھی کہ داعش افغانستان میں کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالنافع ٹکور نے 22 نومبر کو داعش سے متعلق سوالات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ داعش افغانستان میں اس طرح نہیں جس طرح دنیا اس کو خطرہ سمجھتی ہے۔  

طالبان نہ تو افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ داعش کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔

لیکن امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے گذشتہ ہفتے ٹی ٹی پی، داعش اور القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر سکیورٹی خطرات بڑھ جاتے ہیں اور ضرورت پڑی تو ایکشن بھی لیا جاسکتا ہے۔

مغربی سرحد غیر محفوظ

پاکستان کو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اپنی مغربی سرحد کے محفوظ ہونے کی امید تھی، تاہم معاملہ بالکل مختلف رخ اختیار کر گیا ہے۔

چمن کا معاملہ رفع دفع تو ہو گیا لیکن مسئلہ ختم نہیں ہوا ہے اور نہ ہو گا، جس کی بنیادی وجہ معاملات کو سنجیدگی سے نہ لینا ہے۔

جب بھی ٹی ٹی پی نے سرحد پار سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر حملے کیے تو پاکستانی فوج نے برملا کہا ہے کہ حملے میں ’دہشت گردوں‘ نے افغان سرزمیں کو استعمال کیا ہے، لیکن طالبان حکومت نے کبھی بھی پاکستانی موقف تسلیم نہیں کیا۔

کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور بھارت کے ساتھ دیگر سرحدوں پر کافی خاموشی ہے، لیکن مغربی سرحدیں اس طرح خاموش نہیں جس طرح توقع کی جا رہی تھی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2600 کلومیٹر مشترکہ سرحد پر باڑ لگانے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے اور باڑ سے مسئلہ مکمل طور پر حل بھی نہیں ہو سکے گا، جبکہ اس کا واحد حل دونوں پڑوسیوں کے اقدامات ہیں۔

پاکستان کو شکایت رہی ہے کہ سرحد کے اس پار باڑ کے ساتھ ساتھ قلعے اور چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں، لیکن اس پار افغانستان میں اس طرح کے اقدامات نہیں کیے گئے جن کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان بد اعتمادی کے ماحول میں سرحد پر سکیورٹی سے متعلق اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔  

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ