بنوں میں صورت حال سکیورٹی اداروں کے قابو میں: کے پی حکومت

ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف نے بنوں کی تازہ صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے فی الحال کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

جنوری 2011 کو بنوں میں کرفیو کے دوران پولیس اور فوجی اہلکار علاقے میں گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ بنوں کینٹ میں صورت حال پولیس اور سکیورٹی اداروں کے کنٹرول میں ہے۔

پیر کو جاری کیے جانے والے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ عوام پریشان نہ ہوں اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔

محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ ’کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) مرکز بنوں پر باہر سے کوئی حملہ نہیں ہوا۔

’زیر حراست دہشتگردوں نے ہتھیار چھین کر چند پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا ہے اور حکومت دہشت گردوں کی کوئی ڈیمانڈ پوری نہیں کرے گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ محصور شدت پسند ویڈیو پیغامات کے ذریعے عوام کی ہمدردی لینا چاہتے ہیں۔

کے پی حکومت کے ترجمان نے خبر دار کیا کہ مسلح افراد کے لیے بہتر ہے کہ وہ ہتھیار پھینک دیں ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی۔

اس سے قبل خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان فوج اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں تاہم دونوں جانب سے سختی دکھائی جا رہی ہے۔

ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بنوں کی تازہ صورت حال بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے فی الحال کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ وہ تمام رات فریقین کے درمیان مذاکرات اور ثالثی میں مصروف رہے لیکن ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔

’میں تمام رات سو نہیں سکا ہوں۔ ایک فریق محفوظ راستہ چاہتا ہے، دوسرا ان کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بنوں کینٹ میں موجود فوجی حکام حالات کو دیکھ رہے ہیں، لیکن اصل فیصلہ اعلیٰ حکام کریں گے۔‘

ان کے مطابق بنوں میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے کمپاؤنڈ پر قبضہ کرنے والے دہشت گردوں اور فوجی حکام کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

’یہ مذاکرات گذشتہ رات شروع ہوئے، جو تاحال جاری ہیں۔ تاہم فریقین کسی طور ایک دوسرے کی شرائط ماننے کو تیار نہیں ہیں۔‘

بیرسٹر سیف نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے، جن کے مطابق چار دہشت گردوں نے بنوں میں فوجی چھاؤنی میں داخل ہو کر سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور وہاں موجود پولیس اہلکار کو قتل کر کے فوج کے ساتھ جھڑپ میں ایک کپتان اور دو سپاہیوں کو زخمی کرنے کے بعد فوجی اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔

دوسری جانب، فوجی ذرائع کے مطابق، بنوں چھاؤنی میں واقع سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے م اس دوران ایک دہشت گرد نے ایک سی ٹی ڈی اہلکار سے اسلحہ چھین لیا اور وہاں موجود دیگر کو یرغمال بنا لیا۔

ذرائع کے مطابقدہشت گرد نے اپنے دیگر زیر حراست ساتھیوں کو بھی رہا کروا لیا اور یرغمال اہلکاروں کے بدلے بذریعہ ہیلی کاپٹر افغانستان جانے کی شرط رکھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی پیر کی صبح ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’بنوں جیل میں قیدیوں نے کئی فوجی افسران اور جیل عملے کو یرغمال بنا رکھا ہے اور گذشتہ رات سے ان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ ان کو محفوظ راستہ دیا جائے۔‘ 

کالعدم ٹی ٹی پی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کئی سال خفیہ عقوبت خانوں میں رہنے کے باعث ان کو اس وقت کی صورت حال کا پوری طرح اندازہ نہیں ہے، اس لیے انہوں نے افغانستان کا ذکر کیا ہے۔‘

’رات کو حکومتی ذمہ داران سے بات بھی ہوچکی ہے کہ ان قیدیوں کو شمالی یا جنوبی وزیرستان منتقل کیا جائے،  مگر اب تک انہوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔‘

اس دوران دہشت گردوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی جاری کی جا رہی ہیں۔

مقامی صحافیوں کے مطابق، بنوں شہر میں سخت سکیورٹی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور بنوں چھاؤنی میں ہائی الرٹ جاری کر کے کینٹ کو کسی بھی داخلے کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

ان صحافیوں کے مطابق پاکستان فوج کے خصوصی دستے، تھری ایس ایس جی کمانڈوز بنوں کینٹ پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے سی ٹی ڈی کے کمپاؤنڈ کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

اس حوالے سے جب ڈی پی او بنوں محمد اقبال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان