جب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے موت کو بہت قریب سے دیکھا

مئی 2002 میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی کراچی میں موجودگی کے دوران ان کے ہوٹل کے عین سامنے بم دھماکہ ہوا تھا، جس میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

اس فائل فوٹو میں نیوزی لینڈ کے سابق کپتان اسٹیفن فلیمنگ، اور دوسرے کھلاڑیوں کو 18 اپریل 2002 کو کراچی ایئرپورٹ پہنچنے پر دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم، جو دو ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنے ان دنوں پاکستان پہنچ چکی ہے، اپنے 2002 کے آخری دورے کو شاید کبھی نہ بھلا سکے۔

نیوزی لینڈ کے سابق کپتان سٹیفن فلیمنگ نے زندگی میں اگر موت کو کبھی بہت قریب سے دیکھا ہو گا تو وہ کراچی شیرٹن ہوٹل میں وہ لمحہ تھا جب موت ان سے چند قدم کے فاصلے پر رقص کر رہی تھی اور وہ اپنے کھلاڑیوں کے ہمراہ محفوظ مقام کی تلاش میں بھاگ رہے تھے۔

آٹھ مئی 2002 کو شیرٹن ہوٹل کے سامنے فرانسیسی انجینیئرز کی بس میں دھماکہ ہوا تھا جس نے جہاں بہت ساری جانیں لی تھیں وہیں بچ جانے والے نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کے اوسان بھی خطا کر دیے تھے۔

کیویز کرکٹ ٹیم کے اراکین نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایسی تباہ کاری دیکھی تھی۔

ایک انٹرویو میں سٹیفن فلیمنگ نے بتایا تھا کہ وہ لوگ اس صبح بھی معمول کے مطابق بیدار ہونے کے بعد ناشتہ کر رہے تھے اور میرے ساتھ کچھ دوسرے کھلاڑی اور ٹیم کے سکیورٹی ایڈوائزر ریگ ڈیکیسن بھی موجود تھے۔

’ہمیں کہا گیا تھا کہ آٹھ بجے بس روانہ ہو گی، ہم لوگ تیار ہو چکے تھے تاہم کچھ دیر لگی تو ہم لابی میں انتظار کرنے لگے۔

’ہم پہلا ٹیسٹ لاہور میں کھیل کر آئے تھے جہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب دوسرا ٹیسٹ کچھ دیر میں شروع ہونے والا تھا، میں ٹیسٹ کی حکمت عملی سوچ رہا تھا اور مطمئن تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا: ’صوفے سے ٹیک لگائے مجھے اچانک جھٹکا لگا اور ایک دھماکے کی آواز آئی، جو اس قدر شدید تھی کہ ہم اپنی جگہ سے اچھل گئے، اور پھر جو میں نے دیکھا میں دعا کرتا ہوں کہ کبھی کوئی نہ دیکھے۔

’آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے، دھماکے کی آواز سے لگتا تھا کہ کان پھٹ چکے تھے، ہمارے سکیورٹی ایڈوائزر ڈیکیسن نے چیختے ہوئے ہمیں کار پارکنگ کی طرف بھاگنے کو کہا تاکہ ہم کھلی جگہ پناہ لے سکیں۔

’انہیں (سکیورٹی ایڈوائزر کو) ڈر تھا کہ ہوٹل کی بلڈنگ نہ گر جائے، ہم سب بھاگے، اور بھاگتے ہوئے میں نے روح فرسا منظر دیکھا، بم بلاسٹ والے مقام کی طرف سے ایک شخص بھاگا آ رہا تھا اور اس کے بازو الگ ہو چکے تھے، میری روح کانپ گئی۔‘

فلیمنگ کا کہنا تھا: ’ہم جیسے ہی پارکنگ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ صرف آٹھ کھلاڑی ہیں باقی کا کچھ پتہ نہیں، ڈیکیسن انھیں ڈھونڈ رہے تھے، ہر طرف لوگ بھاگ رہے تھے۔‘

کیویز کے سابق کپتان نے اپنے انٹرویوں میں مزید کہا تھا کہ کچھ دیر بعد اوسان بحال ہونے پر باقی کھلاڑی سوئمنگ پول کے پاس بیٹھے ملے، اور اکثر کھلاڑی رو رہے تھے، کیونکہ ہر طرف ٹوٹ پھوٹ تھی جبکہ ہوٹل کے داخلی دروازے پر آگ لگی ہوئی تھی۔

’بم اسی جگہ بلاسٹ ہوا تھا جہاں سے پانچ منٹ کے بعد ہماری بس کو گزرنا تھا، ہمارے دماغ ماؤف ہو چکے تھے اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، تاہم کچھ دیر بعد کیوی بورڈ کے سربراہ مارٹن اسنیڈن نے رابطہ کیا اور پاکستان اور نیوزی لینڈ نے فوری طور پر دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

’ہماری بحفاظت فوری واپسی بڑا چیلینج تھا، جسے دونوں بورڈز نے عجلت لیکن ذمہ داری کے ساتھ بخوبی انجام دیا اور خدا کا شکر ہے کہ ہم خیریت سے واپس پہنچ گئے، یہ معجزہ ہے کہ ہم زندہ واپس آ گئے۔‘

راشد لطیف نے بعد ازاں ایک سکیورٹی اہلکار کی مدد سے شعیب اختر کے کمرے کا دروازہ توڑ کر انہیں باہر نکالا تھا۔

بورڈ کے افسر کا حیران کن ردعمل

دھماکے کے بعد شعیب اختر نے ٹیم کے ساتھ مقیم ایک بورڈ کے افسر کے ردعمل ہر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا: ’وہ (افسر) سکتے میں بیٹھی نیوزی لینڈ ٹیم سے کہہ رہا تھا کہ فکر کی بات نہیں، ٹیسٹ لنچ کے بعد شروع ہو جائے گا۔

’اسے شاید دھماکے کی تباہ کاری سے زیادہ میچ کی فکر تھی۔‘

دھماکہ کا ہدف کون تھا؟

دھماکے کے بعد تحقیقات سے ثابت ہوا تھا کہ بم دھماکہ عین اس وقت کیا گیا جب آگستا آبدوز کے پروجیکٹ پر کام کرنے والے فرانسیسی انجینیئرز بس میں سوار ہو رہے تھے۔

دھماکے میں گیارہ فرانسیسیوں سمیت 17 افراد ہلاک اور درجنوں دوسرے زخمی ہوئے تھے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں نیوزی لینڈ ٹیم بھی ہدف تھی، تاہم تاخیر سے نکلنے کے باعث فرانسیسی انجینیئرز نشانہ بن گئے۔

تاہم بعد میں منظر عام پر آنے والے بعض عوامل نے ثابت کیا تھا کہ دہماکے کا ہدف فرانسیسی انجینیئرز ہی تھے۔


سیریز کا افسوسناک انجام

سیریز کا اختتام بہت افسوس ناک ہوا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم نے فوری طور پر دورہ ختم کر کے وطن واپس جانے کا اعلان کر دیا، حالانکہ پاکستانی مینیجمنٹ دورہ جاری رکھنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ دھماکے کا نشانہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نہیں تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ کھلاڑیوں کے اعصاب ہل گئے تھے اس لیے ان کے لیے سب کچھ بھلا کر کرکٹ کھیلنا ممکن نہیں تھا۔

‌دھماکے کیویز کے تعاقب میں

نیوزی لینڈ کی ٹیم کراچی سے پہلے 1987 میں سری لنکا میں بھی دہشت گردی کا سامنا  کر چکی تھی، جہاں ان کے ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ہی دھماکہ ہوا تھا جس میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کیویز اس دہشت گردی کے بعد دورہ ختم کرکے واپس چلے گئے تھے۔

دھماکے کے بعد بھارتی بورڈ کا تعاون

کراچی دھماکے نے سنسنی پھیلا دی تھی اور ایشیا سے باہر کی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، تاہم اس موقعے پر بھارتی بورڈ نے بھرپور تعاون کیا۔

نیوزی لینڈ ٹیم ابھی تک اس دھماکے کو نہیں بھول سکی ہے، اور سکیورٹی کے تمام تقاضوں کے بھر پور یقین کے بعد ایک بار پھر پاکستان پہنچی ہے، جو 20 سال کے بعد پہلا دورہ ہے۔

نیوزی لینڈ ٹیم گذشتہ سال بھی ایک روزہ میچ کھیلنے پاکستان آئی تھی لیکن راولپنڈی میں پہلے میچ کے آغاز سے قبل ہی دہشت گردی کے خطرات کے سبب واپس لوٹ گئی تھی۔

اب نیوزی لینڈ اپنے دورہ کا آغاز اسی شہر کراچی سے کر رہی ہے جہاں اس نے بم دھماکے، شعلے اور خون کے فوارے دیکھے تھے۔

کیوی ٹیم کو اگرچہ بہترین سکیورٹی دی جارہی ہے اور ملکی صورت حال بھی اس وقت سے بہت بہتر ہے تاہم خوف کا عنصر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ