2022 میں پاکستانی کرکٹ کے پانچ اہم ترین لمحات

آسٹریلیا 24 انگلینڈ 17 اور نیوزی لینڈ کی ٹیم 19 سال بعد پاکستان کرکٹ کھیلنے آئیں وہیں پاکستانی ٹیم نے ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنلز کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

انگلینڈ کے کھلاڑی آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں پاکستان کو شکست دینے کے بعد ٹرافی کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں (اے ایف پی)

2022 اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اس سال میں یوں تو دنیا بھر میں کھیلوں کے اہم مقابلے منعقد ہوئے جن میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، ایشیا کپ سمیت فٹ بال ورلڈ کپ شامل ہیں لیکن ہم یہاں بطور خاص کرکٹ کے میدان میں ان اہم لمحات کا تذکرہ کریں گے جو شاید پاکستانی کرکٹ کے شائقین کے لیے ہمیشہ یادوں کا حصہ رہیں گے۔

یہ سال پاکستانی کرکٹ کے لیے کچھ ملا جلا رہا۔ جہاں ایک جانب آسٹریلیا24 انگلینڈ 17 اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں 19 سال بعد پاکستان کرکٹ کھیلنے آئیں وہیں پاکستانی ٹیم نے رواں سال ایشیا کپ اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنلز کھیلنے کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان ان فائنلز میں فتح یاب نہ ہو سکا۔

یہاں ہم کرکٹ کے میدان کے ان لمحات کو ایک بار پھر اپنے قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

نسیم شاہ کے وہ ’دو چھکے‘

28 اگست کو دبئی کے میدان میں ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف جب نسیم شاہ پاکستان کی جانب سے اٹھارواں اوور پھینکنے آئے تو ان کے سامنے رویندر جدیجا بلے بازی کے لیے موجود تھے، نسیم سے بھاگنا شروع کیا، امپائر کے پاس پہنچے، گیند پھینکی اور زمین بوس ہو گئے۔

نسيم شاہ پھر اٹھتے ہیں، واپس رن اپ کے لیے جاتے ہیں اور پھر گیند پھینکنے کے لیے دوڑتے ہیں، گیند پھینکتے ہیں اور ایک بار پھر پچ پر گرتے ہیں اور چند ہی لمحوں بعد وہ شدید تکلیف کے عالم میں میدان سے باہر لے جائے جاتے ہیں۔

نسیم کے اس اوور میں انڈیا 11 رنز بنا پایا لیکن میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ انڈیا اس میچ میں فتح حاصل کرتا ہے۔

اب چلتے ہیں شارجہ کے میدان میں جہاں سات ستمبر کو پاکستان اور افغانستان کا میچ تقریباً سیمی فائنل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی نہیں بلکہ انڈیا کے بھی ایشیا کپ میں آگے بڑھنے کا فیصلہ ہونا ہے۔

پاکستان نے جب اپنی بولنگ کا اختتام کیا تو میچ یکطرفہ ہوتا محسوس ہو رہا تھا لیکن افغانستان کے 129 رنز بھی پاکستان کے لیے ایک ایسا پہاڑ ثابت ہوئے جسے سر کرنے کے لیے اسے کئی بار گرنا اٹھنا پڑا۔

یوں تو پورے میچ میں ہی دونوں ممالک کے تماشائیوں کے درمیان ایک مقابلے سی کی کیفیت رہی لیکن میچ کے انیسویں اوور میں میدان کے اندر کا درجہ حرارت بھی اس وقت بڑھ گیا جب پاکستانی بلے باز آصف علی کے چھکے کے بعد آؤٹ ہونے پر افغان فاسٹ بولر فرید احمد نے جارحانہ انداز میں خوشی کا اظہار کیا، ردعمل میں آصف علی بھی سیخ پا ہوتے ہوئے ان پر بلا لہرا بیٹھے۔

بات یہاں تک ہی رہتی تو شاید معاملہ ختم ہو جاتا لیکن دونوں کھلاڑیوں کے بیچ بڑھتی تلخی دیکھ کا افغان کپتان محمد نبی اور امپائرز کی بروقت مداخلت نے لڑائی کو مزید بڑھنے سے روک دیا۔ تاہم شاید اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور دونوں ٹیموں کے شائقین اور کھلاڑیوں کا پارہ نقطہ ابال پر پہنچ چکا تھا۔

آصف علی کے بعد محمد حسنین بلے بازی کے لیے آئے تو افغانستان کے کھلاڑیوں کو اپنی فتح محض ایک وکٹ دور دکھائی دے رہی تھی۔

دیر سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ نسیم شاہ نے جب فرید احمد کی گیند پر سنگل لیا تو  پاکستان کو آخری چھ گیندوں پر 11 رنز درکار تھے۔ افغانستان کی جانب سے فضل حق فاروقی بولنگ کے لیے آئے جو اس میچ میں پاکستان کپتان بابراعظم سمیت محمد نواز جیسے کئی اہم کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا چکے تھے۔

فضل حق فاروقی گیند پھینکتے ہیں، ان کی یارکر کی کوشش ناکامی ہوتی اور گیند فل ٹاس کی صورت میں کریز تک پہنچتی ہے لیکن یہاں ایسا منظر دیکھنے کو ملتا ہے جس کا گمان شاید پاکستان شائقین نے بھی نہیں کیا ہو گا، نسیم شاہ کا بلا گھومتے دکھائی دیا اور آن کی آن میں گیند بونڈری لائن کراس کر جاتی ہے۔

افغان کھلاڑیوں کے چہرے پر پریشانی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ نسیم شاہ کو پاکستان کی فتح کے لیے صرف ایک چھکا نہیں بلکہ دو چھکے لگانے تھے۔

افغانستان کی ٹیم کے کھلاڑی جو گذشتہ اوور کی تلخی کے بعد اپنے چہروں پر کبیدگی سجائے ہوئے ہیں نسیم شاہ کو بغور دیکھ رہے ہیں کہ یہ دھان پان نوجوان اب کیا کرتا ہے۔

فضل حق فاروقی دوباره گیند پھینکتے ہیں اور نتیجہ پھر وہی۔۔۔

نسیم اپنا بلا میدان میں پھنیک کر گلوز اتارتے ہیں اور پھر جو ہم نے دیکھا وہ شاید زندگی بھر ہماری کرکٹ یادوں کا سرمایہ رہے گا۔

نواز کی اننگز جس نے پلٹ دی بازی

ایشیا کپ 2022 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے جانے والا پہلا میچ تو انڈیا کے نام رہا تاہم دوسرے میچ میں پاکستان نے فتح حاصل کر کے اس ٹورنامنٹ میں انڈیا کے آگے بڑھنے کے امکانات محدود کر دیے۔

انڈیا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے پاکستان کو 182 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف دیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان اس ٹارگٹ کو پورا کرتے ہوئے پہلے میچ کی شکست کا بدلا سود سمیت چکائے گا۔

انڈیا کے ہدف کےتعاقب کےدوران نویں اوور میں محمد نواز بلے بازی کرنے آئے تو پاکستان بابر اعظم اور فخر زمان کا نقصان اٹھا چکا تھا، جیت کے لیے پاکستان کو 68 گیندوں پر 119 رنز درکار تھے۔

پاکستانی بلے بازوں کی فارم کو دیکھ کر ایک بار تو یہ ہدف ناممکن محسوس ہوا لیکن بھلا ہو محمد نواز کا جنہوں نے انڈین بولنگ کے ریلے کے آگے بند باندھتے ہوئے فتح کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا۔

نواز ہر اہم موڑ پر پاکستان کے لیے اہم باؤنڈری سکور کرتے رہے اور پاکستان کی جیت کے امکان کو روشن رکھا لیکن 15 اوور میں یوزویندر چہل کے ایک اوور میں تین چوکے لگا کر نواز نے پاکستان کی فتح پر مہر ثبت کر دی۔

نواز نے اس میچ میں 20 گیندوں پر 42 رنز بنائے اور ان کا سٹرائیک ریٹ 210 رہا۔ نواز کو اس میچ میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔

’محمد نواز کی ایک گیند پر دس رنز‘

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 کے پہلے میچ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان میلبرن کے تاریخی میدان میں 90 ہزار شائقین کے سامنے ویراٹ کوہلی کی ناقابل فراموش اننگز کی بدولت پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آخری اوور میں انڈیا کو 16 رنز درکار تھے اور اوور کی پہلی ہی گیند پر محمد نواز نے ہردیک پانڈیا کو واپسی کا ٹکٹ تھما دیا، لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ ہر پاکستانی کرکٹ شائق کے دل پر ایک پھپھولے کی مانند کئی برسوں تک جلتا رہے گا۔

اوور کی پہلی تین گیندوں پر انڈین ٹیم صرف تین رنز ہی بنا سکی اور کپتان بابر اعظم کو جیت ہی موہوم امید دکھائی دینے لگی لیکن یہاں ایک گیند نے نہ صرف میچ بلکہ تاریخ کا دھارا ایک بار پھر بدل دیا۔

پاکستان نے گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا کو شکست دے کر اس تاثر کو منہدم کیا تھا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں انڈیا سے نہیں جیت سکتا، اور میلبرن کے میدان میں بھی پاکستان یہ تاریخ دہرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا لیکن وہ ایک گیند۔۔۔ جس نے سب کچھ بدل دیا۔

پاکستانی بولنگ کا آخری اوور محمد نواز کو دیا گیا تھا جنہوں نے پہلی تین گیندیں بخوبی کر کے آدھا مشن پورا کر دیا تھا۔ لیکن پھر نواز کی چوتھی گیند کو ویراٹ کوہلی نے باؤنڈری کے باہر اٹھا پھینکا، اتنا ہی نہیں بلکہ امپائر نے اس گیند کو نو بال اور فری ہٹ بھی قرار دے دیا جس کی وجہ اس کی ویسٹ ہائٹ تھی۔ اس گیند پر انڈیا کو قیمتی سات رنز ملے جس نے میچ کا رخ انڈیا کی جانب موڑ دیا۔

نواز گیند پھینکنے آئے تو ان کے ذہن میں اس بات کا دباؤ تھا کہ ویراٹ کوہلی اس گیند پر لمبی شاٹ مارنے کی کوشش کریں گے، اسی دباؤ میں وہ گیند وکٹوں سے کافی باہر ڈال بیٹھے اور امپائر کے بازوں ایک پھر وائڈ کے لیے بلند ہو گئے۔ انڈیا کے سکور میں ایک مزید رنز کا اضافہ ہو گیا لیکن فری ہٹ ابھی تک باقی تھی۔

اگلی گیند نواز نے یارکر کی اور گیند سیدھی وکٹوں میں جا لیگ لیکن یہاں ویراٹ کوہلی کی حاضر دماغی نے میچ میں انڈیا کی فتح یقینی بنا دی اور انہوں نے بھاگ کر تین رنز بنا لیے۔

یوں نواز کی ایک گیند پر انڈیا کو قیمتی دس رنز ملے اور اگر ایک وائڈ کا ایکسٹر رنز بھی شمار کیا جائے تو کل ملا کر انڈیا اس ایک گیند سے 11 رنز حاصل کر پایا جس کی بدولت اس میچ میں انڈیا کو ایک مشکل لیکن ضروری فتح مل سکی۔

’شاداب خان نے میچ ہروا دیا‘

پاکستانی ٹیم کے نائب کپتان اور آل راؤنڈز شاداب خان نہ صرف اپنی بولنگ اور بیٹنگ سے بلکہ اپنی فیلڈنگ سے بھی پاکستان کو کئی میچ جتوا چکے ہیں لیکن 27 اکتوبر کو پرتھ میں کھیلا گیا یہ میچ ان کے لیے کسی بھی لحاظ سے یادگار نہیں رہا۔ انہیں نہ صرف کرکٹ شائقین بلکہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے بھی یہ گلہ سننا پڑا کہ ’شاداب نے پاکستان کو میچ ہروا دیا‘۔

ان کا یہ شکوہ ٹیم کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے کے دوران سامنے آیا جس میں وہ کھلاڑیوں سے ہلکی پھلکی گپ شپ لگا رہے تھے۔

زمبابوے کے خلاف اس لو سکورنگ میچ میں پاکستان کو سخت مقابلے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شاداب جو تیز کھیلنے کے لیے مشہور ہیں اس میں میں 14 گیندوں پر 17 رنز بنا سکے اور میچ کے اہم موڑ پر سکندر رضا کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔

پاکستان کو اس میچ میں صرف ایک رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ورلڈ کپ میں پاکستان کے سیمی فائنل میں جانے کے امکانات اگر مگر کا شکار ہو گئے لیکن بارش، دوسری ٹیموں کے رن ریٹ اور پاکستان کی خوش قسمتی کے ملاحوں نے مل کر پاکستانی ٹیم کی کشتی کو سیمی فائنل کے ساحل تک لا پہنچایا۔

اس سب میں پاکستانی ٹیم کی جانب سے جس کھلاڑی نے مسلسل شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ شاداب خان ہی تھے۔

پھر پاکستان نیوزی لینڈ سے جیت کر فائنل تک بھی جا پہنچا تاہم انگلینڈ کی بھرپور اور جارحانہ کرکٹ کے سامنے پاکستانی ٹیم کے جوہر کھل کر سامنے نہ آ سکے، بولنگ نے جان ماری تو خوب کی لیکن بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کا بوجھ بولرز آخر کب تک اور کتنا اٹھاتے، رہی سہی کسر شاہین آفریدی کی انجری نے پوری کر دی جو اپنا اوور پورا نہ کر سکے اور انجری کے باعث میدان سے باہر چلے گئے، لیکن وہ اکیلے نہیں تھے، ان کے ہمراہ پاکستان کی فتح کی آخری امید بھی تھی۔

جم لیکر، انیل کمبلے، اعجاز پٹیل اور’ ابرار احمد‘

ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں انگلینڈ کے جم لیکر وہ پہلے بولر تھے جنہوں نے ایک ہی اننگز میں مخالف ٹیم کے 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے   کا اعزاز حاصل ہے۔انیل کمبلے دوسرے کھلاڑی تھے جنہوں نے یہ اعزاز اپنے نام کیا اور پھر نیوزی لینڈ کے اعجاز پٹیل اس فہرست میں گذشتہ سال شامل ہوئے۔

پاکستان نے 17 سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیسٹ ٹیم کی بیزبال کرکٹ کے توڑ کے لیے جب ملتان ٹیسٹ کے لیے ’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد کو کیپ دی تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ بولر ناممکن کو ممکن کرنے کے اتنے قریب پہنچ سکے گا۔

راولپنڈی ٹیسٹ میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کو انگلش بلے بازی کا سحر توڑنے کے لیے جس بولر کی تلاش تھی ابرار احمد ٹھیک وہی سپنر تھے۔

ابرار نے اپنے کیریئر کے پہلے میچ کی پہلی ہی اننگز میں یکے بعد دیگرے انگلینڈ کے سات بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی، لیکن یہاں مخالف ٹیم کے بجائے ان کے اپنے ہی ساتھ زاہد محمود ان کے آڑے آگئے اور بقیہ تین وکٹیں اڑا کر ابرار احمد کا نام اوپر بیان کی گئی فہرست میں شامل ہونے میں رکاوٹ بن گئے۔

ابرار نے میچ کی دوسری اننگز میں بھی چار وکٹیں اپنے نام کیں لیکن پاکستان نہ صرف یہ میچ بلکہ سیریز ہی تین صفر سے ہار گیا۔

اگر پاکستان یہ میچ یا سیریز جیت لیتا تو یقینی طور پر ابرار احمد کو ملنے والی تعریف و توصیف کئی گنا زیادہ ہوتی۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ