فوڈ پروگرام میں کٹوتی سے مودی کی مقبولیت پر کیا اثر ہو گا؟

گذشتہ عام انتخابات میں غریبوں کے لیے مفت رہائش اور گیس پر سبسڈیز سے بی جے پی کو کانگریس کو شکست دینے میں مدد ملی تھی۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی 18 دسمبر 2022 کو اگرتلہ کے سوامی وویکانند سٹیڈیم میں منعقدہ عوامی ریلی میں شرکت کے موقعے پر حامیوں کو دیکھ کر ہاتھ لہرا رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کا اگلے سال ریاستی انتخابات اور 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل غریب عوام کے لیے مفت خوراک اور راشن فرہمی میں کٹوتی کا فیصلہ مالی لحاظ سے تو بظاہر درست اقدام دکھائی دیتا ہے لیکن کیا یہ سیاسی طور پر ان کے ووٹرز کو متاثر کرے گا؟

مودی حکومت کا یہ اقدام ملک کے 80 کروڑ غریب عوام کے لیے مشکلات پیدا کرے گا جہاں کرونا کی وبا اور مہنگائی سے عوام کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے اور یہ اقدام انتخابات کے لیے بھی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

ویسے تو انڈیا میں خوراک کی امداد ایک قانونی حق ہے جہاں 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو گذشتہ 28 مہینوں میں پانچ کلو اضافی چاول یا گندم فراہم کی گئی ہے تاہم مفت خوراک پروگرام نے حکومت کو تقریباً 47 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جس سے مالیاتی خسارہ مزید بگڑ گیا اور سرکاری گوداموں میں گندم کے ذخیرے کئی سالوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے۔

اگلے ماہ یعنی جنوری سے انڈیا کرونا وبا سے جاری اضافی پانچ کلو فی شخص خوراک کی امداد کو ختم کردے گا اور ایک سال کے لیے پانچ کلو مفت خوراک اور راشن فراہم کرے گا لیکن انتخابات سے قبل ایسے اقدامات سیاسی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے رواں ماہ ان کی آبائی ریاست گجرات میں بڑی کامیابی سمیٹی اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں بھی بی جے پی کامیابی حاصل کر لے گی اسی لیے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہی حقیقت مودی کو مالیاتی نظم و ضبط نافذ کرنے کے لیے آزادی فراہم کرتی ہے۔

نئی دہلی کے تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کی سربراہ یامینی ائیر نے فوڈ پروگرام میں کمی کرنے کے فیصلے کے بارے میں کہا: ’یہ دراصل میرے خیال میں مالیاتی دباؤ جیسے حالات میں کافی اہم سیاست چال ہے۔‘

حکومت کو کوویڈ فری فوڈ سکیم کو ختم کرکے سالانہ تقریباً 20 ارب ڈالر کی بچت کی توقع ہے۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اگلے مالی سال کا بجٹ یکم فروری کو پیش کریں گی۔

ایک سرکاری ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ کووڈ کے دور کے مفت خوراک پروگرام کو ختم کرنے کے اقدام سے اگلے مالی سال میں حکومت کے سبسڈی کے بوجھ میں تقریباً 30 فیصد کمی آئے گی اور تیزی سے بڑھتے مالیاتی خسارے کو لگام دینے میں مدد ملے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ خوراک اور کھاد سمیت تین بڑی اشیا پر حکومت کا سبسڈی بل اگلے مالی سال میں چار کھرب روپے (48 ارب ڈالر) سے کم ہونے کا امکان ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ 2023 اور 2024 کے لیے مالیاتی خسارے کا ہدف اس مالی سال کے 6.4 فیصد سے 50 بیس پوائنٹس کم ہوگا۔

لیکن اس اقدام سے مودی پر ووٹرز کا بھروسہ کتنا متاثر ہو گا؟

کچھ ماہرین اقتصادیات چاہتے تھے کہ فوڈ پروگرام کو مہینوں پہلے ختم کر دینا چاہیے تھا۔ حکومت نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ یہ پروگرام دسمبر میں ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کووڈ سے پہلے کے قانون کے تحت سبسڈی کے تحت ایک سال کے لیے خوراک مفت فراہم کی جائے گی۔

انڈیا میں قانون میں عوام کو خوراک کی فراہمی کی ضمانت دی گئی ہے جو اسے ایک عوامی حق کے طور پر بیان کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تین سال قبل انڈیا کے سکریٹری خزانہ کے طور پر ریٹائر ہونے والے سبھاش چندر گرگ نے کہا: ’فی شخص خوراک کی مؤثر رقم کو 10 کلو سے کم کر کے 5 کلو کرنا واضح طور پر غیر مقبول فیصلہ ہے لیکن یہ اضافی فوڈ الاؤنس واضح طور پر خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار نہیں تھا۔

اس لیے اگر آپ یہ سوچ عوام کو پہنچا سکتے ہیں کہ غریب لوگوں کو ان کی حقیقی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار راشن ملے گا یعنی پانچ کلو فی شخص مفت خوراک تو ممکنہ طور پر منفی ردعمل کو بے اثر کیا جا سکتا ہے۔‘

انتخابات پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ’سی ووٹر فاؤنڈیشن‘ کے بانی یشونت دیش مکھ نے کہا کہ مودی کو پیغام پہنچانے کا ماہر سمجھا جاتا ہے جو وہ ووٹروں کو آسانی سے قائل کر سکتے ہیں۔

سی ووٹر کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مودی کی مقبولیت تقریباً 60 فیصد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں ان کے قریبی حریف اور مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی کو عوام میں تقریباً 20 فیصد ہی مقبولیت حاصل ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مودی کو بظاہر کو بڑا چیلنچ درپیش نہیں ہے۔

یشونت دیش مکھ نے 2016 میں بڑے کرنسی نوٹوں پر اچانک پابندی لگانے جیسے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’میرے خیال میں مودی اپنے زیادہ تر فیصلے اسی بھروسے اور مقبولیت کی بدولت انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے کچھ فیصلوں سے عوام کو بڑے پیمانے پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی وہ بہت سے انتخابات آسانی سے جیت گئے۔‘

ان کے بقول: ’اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ مودی کی نیت پر شک نہیں کرتے۔ اگر یہ بھروسہ نہ ہوتا تو کسی دوسرے لیڈر کے لیے انتخابات سے پہلے اس طرح فوڈ پروگرام کو ختم کرنا مشکل ہوتا۔‘

لیکن بی جے پی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر روی شنکر پرساد نے کہا کہ خوراک کی امداد میں کمی کے فیصلے کو انتخابات یا سیاست سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔

ان کے بقول: ’یہ اس وقت شروع ہوا جب کرونا موجود تھا۔ نریندر مودی کی حکومت میں غریبوں کی شمولیت اور انہیں بااختیار بنانا اہم عناصر ہیں۔‘

فوڈ سبسڈیز

قومی انتخابات سے پہلے 2023 میں نو ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں غریبوں کے لیے مفت رہائش اور گیس پر سبسڈیز سے بی جے پی کو کانگریس کو شکست دینے میں مدد ملی تھی۔

دو سرکاری ذرائع نے بتایا کہ فوڈ ہینڈ آؤٹ میں تبدیلیوں کا مطلب ہے کہ خوراک، کھاد اور ایندھن پر حکومت کی کل سبسڈیز 30 فیصد کم ہو کر اگلے مالی سال چار کھرب روپے سے کم ہو جائیں گی۔

ذرائع کے مطابق حکومت مالیاتی خسارے میں کم از کم کمی کرے گی۔

یکم اپریل سے شروع ہونے والے مالی سال میں فوڈ سبسڈی موجودہ سال میں تقریباً 3.2 کھرب روپے سے کم ہو کر اگلے مالی سال تقریباً دو کھرب روپے رہ سکتی ہے۔

انڈیا کے سابق چیف شماریات دان پرناب سین نے کہا کہ اگر کووڈ فوڈ پروگرام کو توسیع دے دی جاتی تو عام انتخابات کے قریب سرکاری گوداموں میں اناج ختم ہو جاتا۔

سین مزید نے کہا کہ 2024 میں اس صورت حال پر قابو پانا بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا۔

(ترجمہ: عبدالقیوم شاہد)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا