وفاداریاں تبدیل: بلوچستان عوامی پارٹی کا مستقبل کیا؟

ایک طرف بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما جماعت چھوڑ کر دوسری جماعتوں کا حصہ بن رہے ہیں تو دوسری طرف سابق وزیراعلیٰ اور پارٹی کے صدر سمیت دوسرے رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ہفتہ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے متعدد افراد نے ملاقات کی، اور تین رہنماوں نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کی (پی پی پی ٹوئٹر)

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں میں صف بندی شروع ہو گئی ہے، جس میں اکثر سیاست دان پرانی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے مستقبل کے لیے نئے مواقعے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ 

رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل وجود میں آنے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، جو ایک بڑی قوت بن کر ابھری اور صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اس وقت بحران کا شکار ہے اور اس کے ئی رہنما وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ 

جہاں ایک طرف بی اے پی کے رہنما جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں جیسے پیپلز پارٹی کا حصہ بنے ہیں، دوسری طرف سابق وزیراعلیٰ اور پارٹی کے صدر جام کمال سمیت دوسرے رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔  

باپ سے تعلق رکھنے والے اراکین بلوچستان اسمبلی ظہور بلیدی، فائق جمالی اور رؤف رند نے حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔

دوسری جانب باپ پارٹی کے سینیٹرز سرفراز بگٹی اور انوارالحق کاکڑ ایک ٹی وی پروگرام میں ’ان کی جماعت کی تشکیل کا مقصد پورا نہ ہونے‘ کا ذکر کر چکے ہیں، جبکہ انہوں نے بیڈ گورننس اور کرپشن کے الزامات بھی لگائے۔ 

ان الزامات کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تسلسل کے ساتھ پیغامات دیتے ہوئے لکھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے نہ صرف خود کو سیاسی طور پر مستحکم کیا، بلکہ وفاق کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہوئے بہت سی تاریخی سکیمیں اور فنڈز حاصل کیے۔

جام کمال اپنی ٹویٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں چند جماعتوں اور باپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر باپ سے راہیں جدا کرنے والے رہنماؤں پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ایک ٹوئٹر صارف ولید بزنجو لکھتے ہیں کہ معذرت کے ساتھ ظہور صاحب اعتراض اس ریموٹ کنٹرول والی سیاست سے ہے۔ بٹن دبایا اور وفاداریاں تبدیل، پھر کہتے ہیں کہ ضمیر کی آواز آئی ہے۔ کیا پانچ سال بعد پھر آواز آئے گی؟ یوں تو نواب اسلم چیف آف ساروان نے بھی حال ہی میں جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی، کیوں ان کے خلاف کوئی رد عمل نہیں دیا؟ فرق سیاست کا ہے۔

اس کے جواب میں ظہور بلیدی نے لکھا: ’بلوچستان میں قبائلی شخصیات کو ہمیشہ رعایت مل جاتی ہے۔ لیکن مڈل کلاس سیاسی قیادت اگر قومی پارٹیوں کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائے تو اس کی حوصلہ شکنی اس لیے کی جاتی ہے کہ اقتدار میں آنے کا دروازہ بند نہ ہو جائے اور ان کا من گھڑت بیانیہ کہیں آشکار نہ ہو جائے۔‘ 

 دوسری جانب موجوہ میر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی حکومت پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ جس میں حالیہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعلٰیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا تھا کہ بلوچستان کی حکومت لین دین کے حوالے سے آئی ہے۔  

ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سرکاری ملازمتیں، وزارتیں اور محکمے برائے فروخت ہیں۔ یہاں پر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہے۔ اس صورت میں ہم اس حکومت کو کوئی حکومت ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے کسی جماعت میں جا رہا ہے تو یہ اس کا جمہوری حق ہے۔ لیکن اگر ان کی پوسٹنگ ٹرانسفر ہو رہی ہے تو یہ بلوچستان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ ’ہمیں پہلے پتا تھا کہ 2023 کے انتخابات میں باپ کے خدو خال تبدیل ہوں گے، جو تبدیل ہو رہا ہے۔‘ 

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے کچھ یوں جواب دیا: ’سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے صوبائی حکومت پر کی جانے والی تنقید اور الزامات غیر جمہوری اور غیر سیاسی ہیں، الزامات لگانا بہت آسان ہوتا ہے لیکن ثبوت پیش کرنا مشکل۔ ایسے الزامات تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت پرم بھی لگتے رہے ہیں بہرحال ڈاکٹر مالک صاحب جیسے سینئر سیاستدان سے اس قسم کے بے بنیاد الزامات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اگر ان کے پاس لین دین کے ثبوت ہیں تو ضرور پیش کریں۔‘

ترجمان نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے تعینات کردہ تمام کوآرڈینیٹر اعزازی ہیں، ان کی کوئی تنخواہ اور مراعات نہیں ہیں، اور مقصد صرف حکومت کا عوامی رابطوں کو مضبوط بنانا ہے۔

انہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک کو یاد دلایا کہ ان کی حکومت کے دوران کوآرڈینٹر نہ صرف تنخواہ اور مراعات لیتے تھے، بلکہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ان کے دفاتر بھی تھے اور وہ پالیسی امور کا حصہ بھی تھے۔ 

جہاں بلوچستان عوامی ( باپ) کے مستقبل کی بات چل رہی ہے تو تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شاہد رند باپ کے مستقبل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ شاید یہ جماعت صرف الیکشن کمیشن کے کاغذات میں موجود رہے گی، اگر ان کے کچھ منتخب نمائندوں کو کہیں جگہ نہ ملے تو وہ اس جماعت کا حصہ رہیں۔ ’باقی اس کا مستقبل نوشتہ دیوار ہے۔‘  

شاہد رند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس مقصد کے لیے یہ جماعت بنی تھی ہوسکتا ہے کہ اس سے اس کے 30 فیصد لوگ جڑے تھے لیکن باقی وہ لوگ تھے جن کو اپنے مفادات یعنی انتخابات جیتنا، وزارت لینا، ترقیاتی فنڈز اور ٹرانسفرز پوسٹنگز کرنا تھا۔  

انہوں نے کہا یہ 70 فیصد لوگ اس جماعت کو غیر مستحکم کرنے اور مقصد کے حصول میں ناکامی کی وجہ بنے اور اس میں انتشار پیدا ہوا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہد رند نے سوال اٹھایا کہ باپ کو چھوڑنے والے اپنے طور انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

’اگر جواب نفی میں ہے تو ان کا جانا واضح کرتا ہے وہ کیوں جا رہے ہیں۔ ’تاہم سوال ہے کہ ان کے جانے کے بعد ان کی نشستیں محفوظ ہو جائیں گی؟ اور کیا کوئی ایسا ماحول بن رہا ہے؟ بظاہر مجھے ایسا نہیں لگتا۔‘  

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی سیاست ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کے گرد گھومتی ہے۔

’بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ مستقبل جمعیت کا ہے بعض اسے پیپلپز پارٹی کا قرار دیتے ہیں تاہم مستقبل کا سیاسی نقشہ ابھی تک مبہم ہے۔ نقشہ نگاروں نے ابھی تک اپنی لائنیں نہیں کھینچی ہیں لیکن کچھ سیاسی کوششیں ہو رہی ہیں جسے میں ایک تاثر قرار دیتا ہوں۔‘ 

شاہد رند نے بتایا کہ پی ٹی آئی اور بی اے پی کو واضح اشارے دے دیے گئے ہیں۔ ’کہ اب مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔‘  

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے، کیوں کہ بلوچستان بحیثیت صوبہ سیاسی یتیم خانہ یا سیاسی تجربہ گاہ لگتا ہے، جہاں ہر پارٹی تجربہ کرتی ہے۔

’پی پی پی 2008 سے 2013 تک تجربات کرتی رہی، قوم پرست جماعتوں نے 1970 کی دہائی میں ایسا کیا، جبکہ ڈاکٹر مالک اور سردار اختر مینگل کی صورت میں یہ تجربے بھی ہو چکے ہیں۔‘  

شاہد رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا کوئی سیاسی مستقبل اس وجہ سے نہیں ہے کہ یہاں کوئی مضبوط حکومت قائم نہیں ہو سکی۔ ’اگر چھ سات جماعتوں کی حکومت بنتی ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ’اس میں دو ہی راستے ہیں کہ وزیراعلیٰ استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے یا اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہے، اور یہی بلوچستان کی سیاست کی روایت ہے۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست