عسکری قیادت کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب ہی کیوں؟

پاکستان کی اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب ہی کا رخ کرتی ہے اور جنرل عاصم منیر نے بھی یہی کیا۔

پانچ جنوری کو ریاض میں سعودی وزیردفاع نے ایک ملاقات میں پاکستانی فوج کے نئے سربراہ مقرر کیے جانے پر جنرل عاصم منیر کو مبارک باد دی (تصویر: سعودی پریس ایجنسی)

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط کثیر الجہتی تعلقات کے تناظر میں حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی امید ظاہر کی کہ سعودی عرب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے میں جلد مدد کرے گا۔

پاکستان کی اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب ہی کا رخ کرتی ہے اور حال ہی میں پاکستان کی بری فوج کی کمان سنبھالنے والے جنرل عاصم منیر نے بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب ہی کا انتخاب کیا۔

جنرل عاصم منیر چار جنوری سے شروع ہونے والے سات روزہ دورے میں سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارت بھی جائیں گے اور وہاں کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔

آخر وجہ ہے کیا کہ پاکستان کی ہر نئی آنے والی سیاسی و عسکری قیادت کی پہلی منزل سعودی عرب ہوتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک کے قریبی کثیر الجہتی تعلقات ہیں جب کہ مسلمانوں کے انتہائی مقدس شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی اسی ملک میں ہیں اور نئی قیادت کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ سعودی قیادت سے ملاقات کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ اور روضہ رسول پر حاضری دی جائے۔

سعودی قیادت بھی ہمیشہ کھلے دل سے پاکستانی قائدین کا نہ صرف استقبال کرتی رہی ہے بلکہ ہر ممکن تعاون بھی باہم پہنچاتی رہی ہے۔

جنرل عاصم منیر ایک ایسے وقت سعودی عرب پہنچے جب پاکستان کو ایک بار پھر معاشی چینلجز کا سامنا ہے اور جنوبی ایشیائی ملک ایک بار پھر سعودی قیادت کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کو اس معاشی بحران سے نکالنے میں مدد دے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے جلد مدد کرے گا۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے نومبر 2021 میں سعودی ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سعودی فنڈ نے تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں رکھے تھے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا مل سکے۔

اب جب کہ ایک بار پھر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائز انتہائی کم ہو گئے ہیں اور یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اس صورت حال میں پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے تاہم وزیر خزانہ کہہ چکے ہیں پاکستان دیوالیہ یا ڈیفالٹ نہیں کرے گا البتہ حکومت تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کو گھمبیر معاشی چیلنج درپیش ہیں۔

سرمایہ کاری اور معاشی تعاون کے علاوہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی دفاعی روابط بھی ہیں اور دونوں ممالک کی مسلح افواج تواتر کے ساتھ مشترکہ مشقیں بھی کرتی رہتی ہیں۔

سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات بھی معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے۔

پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات کی غمازی اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں لگ بھگ 25 لاکھ جب کہ یو اے ای میں تقریبا 16 لاکھ پاکستانی روزگار کے لیے مقیم ہیں۔

جنرل عاصم منیر بھی فوج میں ملازمت کے دوران جب لفٹیننٹ کرنل تھے تو سعودی عرب میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کے حالیہ دورے سے ان تعلقات کو تقویت ملے گی۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں سکول آف پالیٹکس اور انٹرنیشنل ریلشنز کے پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا پاکستان کی سیاسی اور عسکری ایلیٹ جب بھی منصب سنبھالتی ہے وہ سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کرتی ہے، اس کی دو تین وجوہات ہیں۔

یہ وجوہات مذہبی ، پھر سیاسی اور پھر تزویراتی بھی ہیں کیوں کہ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے 1947 سے سٹریٹیجک پارٹنرشپ اور بہت اچھے تعلقات ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر ساتھ قیادت کو ایک موقع ملتا ہے کہ وہ مکہ میں عمرہ بھی کر لیتے ہیں اور مدینہ میں شکرانے کے نوافل بھی ادا کر لیتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے معاملات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار منصور جعفر کے مطابق یہ ایک مسلمہ روایت ہے پاکستان میں کہ آرمی چیف اپنا پہلا دورہ یقیناً سعودی عرب کا ہی کرتا ہے۔

ان کے بقول اس کے دو پہلو ہیں۔ ’پہلا یہ کہ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات، خاص طور پر دفاعی شعبے میں تعاون پر زور دینا ضروری ہوتا ہے اور جب پاکستان میں نئی کمان آتی ہے تو یقیناً سعودی حکومت کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ون آن ون ملاقات سے مستقبل کے حوالے اس ان کا لائحہ عمل برارہ راست جان سکے، بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات۔

’پاکستان کی عسکری قیادت بھی انہیں چیزوں کے لیے وہاں جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں علامتی طور پر بھی اس کی اہمیت ہے۔ کیوں کہ ہماری عسکری قیادت کو عمرے کی ادائیگی اور روضہ رسول پر حاضری کا موقع ملتا ہے۔ اور وہاں جو شاہی پروٹوکول انہیں ملتا ہے وہ بذات خود ایک ایسا اشاریہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے نئی فوجی کمان یا پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے چل کر کس نوعیت کے ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں پر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسی روایت موجود ہے بالخصوص ماضی قریب میں کہ آرمی چیف کے دورے کے موقع پر سعودی حکومت اپنی روایتی فراخدلی اور تعلقات کی مضبوطی کے حوالے سے پاکستان کے لیے کوئی نہ کوئی اس نوعیت کے ریلیف پیکج کا ضرور اعلان کرتی ہے، جو پاکستان کی معیشت کے لیے آج کل کی صورت حال میں بہت بڑا ریلیف ہوتا ہے۔‘

تجزیہ کار منصور جعفر کے بقول جنرل عاصم منیر کے دورے سے قبل بھی توقعات کی جا رہی تھیں کہ شاید اس موقع پر سعودی عرب پاکستان کی معیشت کے لیے کسی قسم کے پیکج کا اعلان ہو جائے۔

’یہ بھی ایک توقع ہوتی ہے اور یقینا اس میں سعودی عرب نے ہمیشہ سے حقیقی معنوں بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کو ان تمام اہم مراحل پر بیل آؤٹ کیا ہے۔‘

یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی نئے آرمی چیف کی پہلی منزل یقینا سعودی عرب ہوتی ہے۔ اور ہمارے موجودہ آرمی چیف کا پہلا دورہ بھی سعودی عرب ہی قرار پایا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان