یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
رنگ برنگی جمہوریت کی داستان چونکہ ہر طرف بکھری پڑی ملتی ہے، اس لیے ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جو اس قسم کی جمہوریت سے آگاہ نہ ہو۔ دنیا میں پھیلی اس رنگ برنگی جمہوریت کی مثال چینی ساختہ برائے فروخت مال کی ہے۔ ہر طبقے اور ہر ملک کے لیے چین میں مال تیار کیا جاتا ہے۔
ہر ایک کی ضرورت، گنجائش اور ماحول کے مطابق، الگ الگ معیار اور الگ الگ قیمت کے ساتھ۔ جمہوری سیاست کی مصنوعات بنانے والوں اور دنیا کے ساتھ جمہوریت بازی کرنے والے بھی جمہوری اصولوں اور اقدار کی ’مارکیٹنگ‘ اسی انداز سے کرتے ہیں۔
نیلی پیلی، لال گلابی ہر رنگ کی جمہوریت۔ کہیں صدارتی جمہوریت بیچ ڈالی، کہیں پارلیمانی جمہوریت کا سودا ہو گیا اور کہیں بادشاہت اور موروثیت کے تاج شاہی کے نیچے پلی بڑھی موٹی تازی جمہوریت کے بدلے دام کھرے کر لیے۔ یہ بھی سہولت موجود ہے کہ کوئی چاہے تو اپنی مرضی کا خوانچہ تیار کر کے جمہوریت کا 'ٹیگ' لگا لے۔
اپنی مرضی کا مرچ مصالحہ، اپنی مرضی کا تڑکا لگائے۔ اسے امرت دھارا بنا کر بیچے یا عوام کے لیے سوہان روح بنا دے۔ مراد یہ کہ جب بھی کوئی مشکل فیصلہ یا من مانی عوام پر مسلط کرنا ہو اسے جمہوریت کے نام پر کرے۔
آپ چاہیں تو اس جمہوری ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دیں اور چاہیں تو دال جوتوں بانٹ بانٹ کر جوتوں سمیت مزے اٹھائیں۔ جمہوریت کی فیکٹری والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بشرطیکہ آپ ان کو مرضی کی خراج دینے کے لیے تیار رہیں۔
ان کے کلچر کی فرینچائز لینے کے علاوہ کاروباری طور پر ان کے مرہون منت رہیں، ان کی کرنسی کی چھری سے اپنی عوام کی زندگیاں حرام اور اپنے لیے سب حلال کرتے رہیں۔ نیز 'جمہوریت مشترکہ' سے بندھے رہیں، اشاروں پر چلتے رہیں۔
جمہوریت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے، قانون جب چاہیں اور جتنا چاہیں بدل لیں۔ جس طرح کی خواہش پوری کرنا چاہیں یا من مرضی کرنا چاہیں ویسا ہی قانون بنا لیں۔ اپنی مرضی کو انصاف کا نام دیں، چاہیں تو جنگل کو شہر میں بدل دیں اور جی چاہے تو شہر کو جنگل بنا دیں۔
انسانوں کی بنائی ہوئی اس جمہوریت اور نظام قانون و انصاف کا یہی کمال ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اس لیے بار بار لکھ کر مٹانا پڑتا ہے۔ لیکن اس میں آپ کے ہر مخالف کے لیے یہ کھلا اعلان جنگ ہے ’کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔‘
اس جمہوری غلغلے میں ایک بالکل منفرد اور نارمل دنیا سے ہٹی ہوئی چیز جمہوری عسکریت ہے۔ یہ عسکریت بھی اسی لیے قبول اور روا ہے کہ اس نے جمہوری لبادہ پہن رکھا ہے۔ یہ جمہوری عسکریت اب پوری قوت کے ساتھ اسرائیل میں عسکری جمہوریت کے مقابل آ رہی ہے۔ چونکہ جمہوریت میں بھی جنگل کے ازلی قانون کی طرح survival of the fittest کا اصول غالب ہوتا ہے۔
اس لیے اسرائیل میں جمہوری عسکریت اور عسکری جمہوریت کے درمیان یہ مقابلہ لازم ہو گیا ہے، تا کہ یہ فیصلہ ہو جائے کس قاتل کے بازو میں زیادہ زور ہے۔ ویسے تو شروع سے اسرائیل میں نسل پرستانہ عسکری جمہوریت کا راج رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی ساختہ شناخت میں یہودی جنگجوؤں اور عسکریت پسندوں کا حصہ عالمی طاقتوں کی مہربانی کے بعد غالب رہا ہے۔ مگر اب جمہوری عسکریت بھی زیادہ زور آور ہو کر سامنے آ گئی ہے۔
تاہم اس سے مفر نہیں کہ بات عسکری جمہوریت کے غلبے کی رہی ہو یا جمہوری عسکریت کی یہودی جنگجو تنظیموں کا ذکر اور کردار نمایاں ملے گا۔ اگرچہ برطانیہ بہادر نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں آج کے امریکہ کی طرح بعض حد سے بڑھی یہودی جنگجو تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ وجہ صاف تھی کہ یہ یہودی تنظیمیں عرب دشمنی کے جذبے سے سرشار ہونے کے علاوہ برطانوی مفادات میں آڑے آنے لگی تھیں۔
بہرحال 1948میں آنے والی قیامت کبریٰ، جیسے فلسطینی ’نکبہ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، کے بعد اسرائیلی فوج کی صورت ان کا نہ صرف نیا ظہور ہو گیا بلکہ اسرائیلی حکومت پر بھی انہی کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ انہوں نے ہی اپنے ساتھ حملہ آوروں کی صورت میں آنے والے یہودیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے اور بعد ازاں دیگر لاکھوں یہودی آباد کاروں کے لیے ناجائز یہودی بستیوں کا قیام ممکن بنایا۔
یہودی آباد کاروں کے لیے ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر کرنا اور کرتے چلے جانا۔ سرزمین فلسطین پر یہودی آبادی کی مصنوعی کاشتکاری کی ایک شکل تھی کہ ان یہودی بستیوں کے ذریعے یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے لازم تھا کہ یہودیوں کو یورپ و امریکہ سے دھڑا دھڑ لا کر یہاں بسایا جائے اور عربوں کو مار مار کر بھگایا جائے۔
جنگجویانہ تجربہ، مہارت اور بے رحمی کا حامل ہونے کی وجہ سے عملاً یہ معمول نما اصول قرار پایا کہ حکمران طبقے کے زیادہ تر لوگ اسی اسرائیلی فوج سے ہوں گے جو ماضی میں جنگجو تنظیموں میں کمانڈر وغیرہ رہ چکے ہیں اور فوج کی تشکیل میں انہوں نے جس طرح اپنی تنظیموں سے وابستہ جنگجوؤں کو کھپایا ہے۔
اسی طرح اسرائیلی فوج میں ایک غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس کی تشکیل نہ صرف یہودی جنگجو تنظیموں کے ملغوبے کی صورت ہوئی تھی بلکہ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ اسرائیلی افواج یعنی 'آئی ڈی ایف' میں بھرتیاں بھی خالصتاً نسلی بنیادوں پر کی جائیں گی۔
شروع سے ہی نسل پرستانہ بنیادوں پر ’آئی ڈی ایف‘ کو آگے بڑھایا جاتا رہا۔ یہودی مرد و زن ہونا اس فوج کا اول و آخر بہترین معیار رہا۔ 18 سال کی عمر کو پہنچ جانے والے ہر یہودی النسل کے لیے فوج میں خدمات انجام دینا اور بھرتی ہونا لازم قرار ہے۔
باقی دروز قبیلے کے فوج میں بھرتی کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی اہم مرتبے پر پہنچ سکیں گے۔ رہے عرب تو ان کے لیے بھرتی کی کوئی گنجائش سرے سے موجود نہیں ہے۔
تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اسرائیلی ’آئی ڈی ایف‘ سے زیادہ ماہر اس نوع کی دوسری مخلوق اسرائیل میں پرورش یا فروغ نہیں پا رہی تھی۔ یہودی جنگجو خاندانوں سے نسل پرستی اور عرب دشمنی کی گھٹی لینے والے بے شمار اسرائیلی ایسے بھی ہیں جو خود کو فوج سے بھی زیادہ اسرائیل کے محافظ خیال کرتے ہیں۔
ان کا یہ سوچنا بھی اہم ہے کہ ان کے آباؤ اجداد بھی دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کر کے جنگجوؤں کی صورت یہاں حملہ آور ہوئے تھے۔ اس لیے عربوں اور فلسطینی عوام کے ساتھ جس طرح نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو وہی پورا کر سکتے ہیں۔ انہی میں ایک نام ایتمار بن گویر کا ہے۔
ایتمار گویر کی والدہ ایک جنگجو تنظیم ’آرگن‘ سے وابستہ تھی۔ یوکرین سے فلسطین آ کر عربوں کے خلاف لڑتی رہی۔ گویر نہ صرف ایک جنگجو ماں کا بیٹا ہے جیسا کہ اسرائیل میں اور بھی بے شمار اسرائیلی موجود ہیں بلکہ وہ اپنی ماں سے بڑھ کر مذہبی صہیونی کا درجہ بھی پا چکا ہے۔ جبکہ اس کی ماں سیکولر تھی۔ بن گویر نے شدت پسندی اور دہشت گردی میں نو عمری میں ہی ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ جب 18سال کا ہوا تو اسرائیلی فوج کو اسے بھرتی کرنے سے انکار کرنا پڑا اور اس کے لیے فوج میں بھرتی سے استثنا کا اعلان کیا گیا۔
اس کی نسل پرستانہ انتہا پسندی کو فوج بھی نہ سنبھال سکتی تھی۔ بن گویر کی فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف شدت پسندی اسرائیل کی فوجی ضرورت سے بھی کہیں زیادہ آگے تھی۔ یوں اس کے فوج میں آنے کا راستہ روک دیا گیا۔
گویا بن گویر جو آنے والے محض چند دنوں میں اسرائیل کا وزیر داخلہ بننے جا رہا ہے فوج کے ساتھ ایک ایسی 'پرانی لڑائی' رکھتا ہے۔ جس کا اسے اب حساب برابر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اسی لیے بن گویر اسرائیلی فوج کے اس فیصلے کے خلاف کھل کر بولا جس میں ایک فوجی کو بائیں بازو والوں کا مذاق اڑانے پر دس دن قید کی سزا دی گئی تھی۔ مستقبل کے وزیر داخلہ نے 30 اکتوبر 2022 کو ایک نیوز کانفرنس میں مذہبی صہیونی فوجی کو دس دن کی قید سنانے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
مگر خیال رہے یہ اسرائیلی فوجی کی حمایت نہ تھی بلکہ ایک مذہبی صہیونی فوجی کی تائید تھی۔ اسی ماہ دسمبر کے آغاز میں بن گویر نے اسرائیلی بارڈر پولیس کے ایک افسر کے ہاتھوں ایک سترہ سالہ فلسطینی کی بہیمانہ انداز کے قتل پر پولیس افسر کی پذیرائی کی ہے۔ ایسے پولیس افسر کی جس کی اقوام متحدہ کے نمائندے نے مذمت کی ہے۔
بن گویر نے جس طرح کی تربیت پائی اور سیاست کی ہے۔ اسی کی بدولت وہ اسرائیل کے وزیر داخلہ کے منصب تک پہنچ رہا ہے۔ اسی کی بدولت وہ اب یورپ و امریکہ ہی نہیں عرب اور مسلم دنیا کے وزرائے داخلہ، وزرائے اعظم اور صدور سے اہم اور حساس امور پر ملاقاتیں کرے گا، مشاورتیں کرے گا اور امن منصوبوں پر بات کیا کرے گا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلنے دے گا کہ وہ وزیر داخلہ بننے سے پہلے کیا کرتا رہا ہے اور اب کیا عزائم لے کر وزارت داخلہ تک پہنچا ہے۔
بلا شبہ یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ اسی راستے سے وہ اسرائیلی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھنے میں حق بجانب ہے کہ نتن یاہو بھی اسی طرح سے چھٹی بار وزیر اعظم بننے جا رہا۔ اس لیے اس نے یہ نیوز کانفرنس کر کے کئی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی، دو دن بعد ہونے والے اسرائیلی انتخاب میں کامیابی کو یقینی بنا لیا، اسرائیلی شہریوں کے اندر غالب مذہبی صہیونی عنصر کو اپنے اور قریب کیا اور فوج میں موجود مذہبی صہیونیت کے حامی عناصر کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
بن گویر کی اس نیوز کانفرنس سے فوج کی ہائی کمان میں اس قدر پریشانی کی لہر دوڑی کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کسی فوجی ترجمان یا حساس ادارے کے سربراہ کو جواب دینے کے لیے آگے نہ کیا بلکہ خود ایک ٹویٹ کیا اور بن گویر کو جواب دیا کہ 'ہمیں اپنا ڈسپلن بحال رکھنا ہے۔' جانے والے وزیر اعظم یائر لپیڈ نے کہا 'فوج کے لیے ایک واضح چین آف کمانڈ ضروری ہے۔'
اور اسرائیلی صدر نے بن گویر کے وزیر داخلہ بننے اور نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے محض چند روز قبل یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ فوجی معاملات میں مداخلت سے باز رہا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ کے مطابق ’اخلاقی و اصولی بحث اپنی جگہ مگر فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔‘ اگرچہ اسرائیلی فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے والی بات بھی محض ایک مذاق ہے۔
اسرائیل کی سیاست اور فوج لازم و ملزوم انداز میں تقریباً 75 برسوں سے ایک ساتھ ہیں۔ سیاست اسرائیلی فوج کے رگ و پے میں ہے اور اسرائیلی فوج اسرائیلی سیاست و اقتدار کے رگ و پے میں ہے۔ دوسری افواج کی کئی مثالیں بڑے واضح طور پر موجود ہیں مگر سیاست میں فوج کی موجودگی کا جو ماڈل اسرائیل میں ہے، یہ سب سے جدا ہے۔ اس لیے اس کو سیاست میں گھسیٹا جا سکتا ہے نہ گھسیٹ کر سیاست سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
بہرحال بن گویر فوج کے مقابل آ کر کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر پائیں گے اس کا فی الحال اندازہ تو مشکل ہے مگر یہ واضح ہے کہ ایک فرد جس کی فوج کے ساتھ مخاصمت نوجوانی سے چلی آ رہی ہے، جس پر محض الزامات نہیں، اس کے اپنے فخریہ دعوے کے مطابق اس پر 53 مقدمات کچھ عرصہ پہلے تک ہو چکے تھے۔
جو وزیر اعظم اسرائیل اضحاک رابین کو اس کے قتل سے محض ہفتہ دس دن پہلے یہ دھمکی ٹی وی سکرین کے ذریعے دیتا ہے کہ ’آپ کی کیڈ لیک گاڑی کا لوگو اتار کر لے آئے ہیں۔ ہم آپ تک پہنچ چکے ہیں‘ بن گویر کی ٹی وی پر اس دھمکی کے چند دن بعد اسرائیل کے نوبل انعام یافتہ وزیراعظم رابین کو اسی گاڑی میں قتل کر دیا جاتا ہے۔
بن گویر کے لیے اسرائیل اور اسرائیل کے آس پاس تک اپنی عرب دشمنی اور اسرائیلی بالادستی کی جنگ لڑنا اس لیے بھی آسان ہے کہ اسے نتن یاہو ایسا وزیراعظم ملا ہے۔ وہی نتن یاہو جس نے اضحاک رابین کی طرف سے اوسلو معاہدے پر دستخطوں کے بعد ایک ریلی نکالی تھی جس میں رابین کا علامتی تابوت لایا گیا تھا۔
نتن یاہو کے خیال میں ’فلسطینیوں اور عربوں کو زمین واپس کرنا یہودی روایت کے خلاف اور ناقابل قبول بدعت ہے۔‘
نتن یاہو کے یہ خیالات بن گویر کے ان خیالات سے قطعاً مختلف نہیں جو وہ اپنی انتخابی جیت کے بعد فلسطینی عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں سامنے لاتا ہے 'کہ ہم آپ کے مالک مکان ہیں۔ تم کرایہ دار ہو، میں آپ کا مالک مکان ہوں۔'
اپنے مالک ہونے کا یہی اعلان بن گویر 13 اکتوبر کو مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے خلاف یہودی آباد کاروں کے ایک بڑے جتھے کی تصادم میں قیادت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے سامنے کیا تھا۔ 13اکتوبر کو بن گویر نے اپنا پستول بھی نکال لیا تھا کہ فلسطینیوں کو ہراساں کر سکے۔
13 اکتوبر کو بن گویر نے اسرائیلی پولیس کو بھی فلسطینیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا۔ مگر پولیس نے فلسطینیوں پر براہ راست فائرنگ نہ کی تھی۔ اب امکانی طور پر 13 دسمبر کے بعد وہ پولیس بن گویر کی مکمل کمان میں ہو گی۔ اس کی کوشش ہے کہ اسرائیلی بارڈر پر رینجرز کو بھی براہ راست اپنی ماتحتی میں لے آئے۔ جو ایک بیرا ملٹری فورس ہے۔
اس کی تربیت فوج میں ہوتی ہے تاکہ اسرائیل کو ایک خالص یہودی النسل ریاست بنانے میں یہ اپنا کردار زیادہ مؤثر انداز میں ادا کر سکے۔
اسرائیل کی فوج کو بن گویر یا نئی اسرائیلی حکومت کے اس ایجنڈے سے فی نفسہ کوئی اختلاف نہیں۔ اس کا ہدف بھی یہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج جو اسرائیل میں تقریباً 75 برسوں سے ہر کام میں ہمہ جہت انداز میں دخیل رہی ہے وہ اپنے مقابل جمہوری عسکریت کو کیونکر برداشت کرے؟
فلسطینیوں کی زمین پر قبضے کے بعد اسے فروخت کر کے پیسہ کمانے والی فوج کیسے چاہے گی وہ اس حقوق تجارت کسی اور کو دے دے۔ بیرون ملک سابق فوجی افسران کی بڑی بڑی کمپنیاں کامیابی سے بزنس کر کے جو دولت کما رہے ہیں۔ وہ اپنا اختیار کمزور کر کے کیوں کسی اور کو موقع دے۔
یہی تو موقع ہے کہ عسکری جمہوریت کے انداز میں اسرائیلی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو ریٹائرڈ ہوتے ہی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سے انداز میں، مڈل ایسٹ کمپنیوں کی کاروباری فتوحات کرنے کے لیے راستے کھلے ہیں۔ حالات نارمل ہونے کے راستے پر آئے ہیں لیکن جمہوری عسکریت کے غالب آنے سے ملک کے اندر اختیار و اقتدار تقسیم ہو گا۔
یہودی آبادی اور فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کے سارے منصوبے فوجی دائرہ اختیار سے دور ہو جائیں گے اور بیرون ملک امکانات معدوم ہو جائیں گے کہ اسرائیل کے اندر جتنے بھی اہم ہوں، بن گویر اور سموتریتش کو امریکہ و یورپ کے صہیونی بھی آسانی سے ہضم نہیں کر سکیں گے۔
اگرچہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے نتن، گویر اور سموتریتش کی متوقع نئی حکومت کے لیے خیر مقدمی انداز میں کہہ دیا ہے کہ 'امریکہ شخصیات کو دیکھ کر ڈیل نہیں کرے گا کہ اقتدار کے ایوان میں کون بیٹھا ہے بلکہ وہ پالیسیوں کی بنیاد پر ڈیل کرے گا۔' تاہم یہ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ کے لیے عسکری جمہوریت زیادہ مرغوب ثابت ہوتی ہے یا جمہوری عسکریت۔
فطری سی بات ہے کہ امریکہ چھ دسمبر کو پھر یاد آنے والی بابری مسجد کی مسماری میں ملوث نریندر مودی کو قبول کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ محبت کی پینگیں آگے بڑھا سکتا ہے تو فلسطینیوں کے گھر بار مسمار کرنے والوں کو کیوں خوش آمدید نہیں کہے گا۔
امریکہ عسکری جمہوریت کے ساتھ بھی رہا ہے، اب جمہوری عسکریت والے بھی اسی طرح خوش آئیں گے۔ تاہم اسرائیل میں ایک نیا میدان ضرور سج سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔