یوکرین جنگ نے روسی قوم پرستوں کو متحد کر دیا

مغرب میں روس پر شدید تنقید نے ماضی میں خطرہ سمجھے جانے والے قوم پرستوں کو ابھرنے کا موقع دیا ہے۔

یوکرین میں ماسکو کی فوجی مداخلت قوم پرست بلاگر رومن انتونوفسکی کے کیریئر کے لیے حیرت انگیز  ثابت ہوئی، جن کا ایئر ٹائم شدید لڑائی شروع ہونے کے بعد سے بڑھ گیا ہے۔

ماسکو کے اندر ایک حب الوطنی کے کنسرٹ میں سٹیج پر آنے سے قبل اس 42 سالہ مارکیٹنگ سپیشلسٹ نے کہا ’روس میں نیا جنون حب الوطنی ہے۔‘

انہوں نے قوم پرست نظمیں پڑھنے سے پہلے ہم خیال مجمعے سے کہا ’مجھے تمہارے چہرے پسند ہیں۔ یہ لبرل ازم سے نہیں بگڑے!‘

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایک زمانے میں روس کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے قوم پرست اب یوکرین میں روس کے ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کے پس پشت ایک محرک قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔

اس مہم کی سخت گیر حمایت نے انہیں میدان جنگ میں غلطیوں کا ذمہ دار سمجھے جانے والے عہدے داروں پر تنقید کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔

یوکرین کے شمال مشرقی علاقے خرکیف اور جنوبی شہر کھیرسن میں ناکامیوں کے بعد قوم پرستوں نے جرنیلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہاں تک کہ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا بھی مطالبہ کیا۔

'روسفوبیا نے ہمیں متحد کر دیا'

ان کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اگست 2022 میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی شخصیت الیگزینڈر ڈوگن کی بیٹی ڈاریا ڈوگینا کی آخری رسومات کے موقعے پر ظاہر ہوا، کار بم دھماکے میں ہوئی ان کی موت کا الزام یوکرین پرعائد کیا گیا تھا۔

ماسکو میں ایک یادگاری تقریب کے لیے سینکڑوں افراد جمع ہوئے اور پوتن سمیت دیگر نے تعزیت کا اظہار کیا۔

قوم پرست خیالات رکھنے والے بلاگرز، صحافی اور دانش ور، جو کبھی سوشل میڈیا تک محدود تھے، انہیں اب روس کے سرکاری ٹی وی پر باقاعدہ دکھایا جاتا ہے۔

روس کی آزاد، غیر سرکاری پولنگ اور سماجی تحقیقی تنظیم لیواڈا سینٹر کے سربراہ ماہر سماجیات لیو گڈکوف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس خصوصی فوجی آپریشن کی حمایت کے لیے روس کو قوم پرست چاہییں۔‘

گڈکوف کے مطابق لیوڈا سینٹر کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 78 فیصد روسیوں کا خیال ہے کہ روس ’دشمنوں سے گھرا ہوا ایک عظیم ملک‘ ہے اور روس کی تنہائی کا بڑھتا ہوا احساس روس کے نئے محب وطنوں کے لیے مقبول پیغام ہے۔

بلاگ پوسٹوں اور ریڈیو پر، انتونوفسکی ’عظیم روسی سلطنت‘ کو ’روایتی اقدار کا آخری گڑھ‘ قرار دیتے ہیں۔

وہ لبرل مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے اور روس میں ’روسوفوبز‘ کے خاتمے اور اور میڈیا کو قومیانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’مغربی روسو فوبیا نے ہمیں متحد کر دیا۔‘

’سہولت کی شادی‘

ایک طالب علم ویلری رومانوف کا کہنا ہے کہ کچھ نوجوان روسی تاریخ اور قوم پرست آوازوں کی طرف راغب ہوتے ہیں تاکہ ’اب جو ہو رہا ہے‘ اس کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔

اس 19 سالہ نوجوان نے کہا، ’قوم پرستی لازمی طور پر انتہا پسندی نہیں۔ یہ حب الوطنی کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔‘

وہ 20ویں صدی کے اوائل میں روس میں بادشاہت پسند اور انتہائی قوم پرست تحریک کے نام پر بلیک ہنڈریڈ پبلشنگ ہاؤس میں لاجسٹکس سنبھالتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے دو دوستوں نے یوکرین میں لڑنے کے لیے پڑھائی سے ایک سال کی چھٹی لی تھی۔

تاہم رومانوف محاذ پر بھیجنے کے لیے ادویات، خوراک اور کپڑوں کے عطیات جمع کر کے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

خود کو ’نیشنل ڈیموکریٹک‘ سمجھنے والے27 سالہ محقق ڈینیل مخنتسکی، ’سوسائٹی فیوچر‘ نامی ایک چھوٹے سے سیاسی گروپ کے بانی ہیں جو روسی فوجیوں کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا اگلا ٹرک ابتدائی طبی امداد والی 2300 کٹس لے کر روانہ ہوگا۔

انہوں نے کہا، ’یورپ کا خیال تھا کہ پابندیاں ہمیں ولادی میرپوتن کا تختہ الٹنے پر مجبور کریں گی۔ لیکن ان کا اثر اس کے برعکس ہوا: روسی حب الوطنی پھل پھول رہی ہے۔’

ماہر سماجیات گڈکوف کا کہنا ہے کہ’ قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر جو فی الحال روس کی خدمت کر رہی ہے اس میں ممکنہ خامیاں ہیں۔

’یہ سامراجی شاونزم بہت خطرناک ہو سکتا ہے. سول سوسائٹی کی کمزوری کی وجہ سے یہ ملک میں ایک غالب سیاسی قوت بن سکتی ہے۔‘

مخنتسکی کو اس تحریک کے لیے روس کی رواداری کے بارے میں ’کوئی غلط فہمی‘ نہیں۔

ان کا کہنا ہے ’یہ سہولت کی شادی ہے، ایک بار جب امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے تو یہ ختم ہو جائے گا۔‘

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: العاص)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ