برطانوی حکومت افغانستان میں پھنسے کنٹریکٹرز کی قرض دار

برطانیہ کی مدد کرنے والوں کو پناہ گاہ فراہم کرنے کے بارے میں حکومت کے پرجوش الفاظ تیزی سے کھوکھلے ثابت  ہو رہے ہیں۔

برطانوی مسلح افواج کے ارکان 29 اگست 2021 کو لندن واپسی کے بعد (اے ایف پی)

آپریشن پِٹِنگ کے تحت برطانوی حکومت نے انتہائی جلد بازی میں ان افغان شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کے قابل بنانے کے منصوبے تیار کیے جنہوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کیا تھا لیکن افغان شہریوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑنے میں ناکام رہی۔

ایسا ہی ایک گروپ ان 200 کے قریب افغان شہریوں کا تھا جنہوں نے برٹش کونسل کے ساتھ کنٹریکٹر کے طور پر کام کیا تھا۔ اگرچہ برٹش کونسل کے ملازمین کو افغانستان سے نقل مکانی اور امدادی پالیسی میں شامل کیا گیا تھا لیکن ان کنٹریکٹرز کے لیے رہنمائی کم واضح تھی۔ کنٹریکٹرز کی اکثریت 2021 کے موسم گرما میں افغانستان سے نہیں جا سکی۔

برٹش کونسل کے آل پارٹی پارلیمانی گروپ (اے پی پی جی) کے سربراہ کی حیثیت سے، کنٹریکٹرز کی جانب سے براہ راست اور برطانیہ میں ان کی ایما پر دوسرے لوگوں کی طرف سے ہمارے ساتھ رابطے کا آغاز ہوا۔

میں نے سب سے پہلے نومبر 2021 میں کنٹریکٹرز کی حالت زار کا معاملہ اٹھایا جب میں نے وزیر دفاع کو متنبہ کیا کہ کنٹریکٹرز اپنی روپوشی کی زندگی، ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقلی اور ہر وقت طالبان کی جانب سے تلاش کیے جانے کے بارے میں بتا چکے ہیں۔

اگرچہ کنٹریکٹرز نے سرکاری طور پر برٹش کونسل کے لیے کام نہیں کیا تھا لیکن طالبان نے کوئی امتیاز نہیں کیا اور افغان صوبے کے چھوٹی سی جگہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ جانتے ہیں کہ کس نے غیر ملکیوں کے ساتھ ’تعاون‘ کیا۔

جنوری 2022 میں حکومت نے بڑی دھوم دھام سے افغان شہریوں کی آبادکاری کی سکیم (اے سی آر ایس)  کا آغاز کیا جو خطرے کا شکار ہو جانے والے افغان شہریوں جن کا برطانیہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا، افغانستان سے فرار ہو کر برطانیہ میں نئی زندگی گزارنے کے قابل بناتی۔

بہت جلد ہی واضح ہو گیا کہ کنٹریکٹرز اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں گے لیکن یہ منصوبہ بوجھل پن اور سست روی کا شکار ہے۔ صورت حال کچھ زیادہ ہی مایوس کن ہے کیوں کہ فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او)  نے برٹش کونسل کے سپانسرنگ ڈپارٹمنٹ کے طور پر، افغانستان میں رہ جانے تقریباً تمام کنٹریکٹرز کی ’بہت زیادہ‘ یا ’زیادہ‘ خطرے میں ہونے کے حوالے درجہ بندی کر دی ہے۔

جون میں کچھ پیش رفت ہوئی جب یہ اعلان کیا گیا کہ افغان کنٹریکٹرز اے سی آر ایس کے تحت جگہ کے لیے اگست تک کھلی رہنے والی کھڑکی کے ذریعے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس وقت بھی حکومت کو درخواستیں موصول ہوتے ہی ان پر کارروائی کے لیے قائل کرنے کی ضرورت تھی، بجائے اس کے کہ کھڑکی بند ہونے تک انتظار کیا جائے اور پھر ان پر کارروائی کی جائے۔ برٹش کونسل نے حقیقی درخواستوں کو الگ کرنے کے لیے ایف سی ڈی او  کے شانہ بشانہ کام کیا۔

ستمبر میں تقریباً 90 کنٹریکٹرز کو مطلع کیا گیا  کہ ان کے لیے اے سی آر ایس کے تحت  جگہ ہے اور سکیورٹی چیک زیر التوا ہے۔ لیکن دسمبر تک انہیں مزید کچھ نہیں بتایا گیا۔ برٹش کونسل اے پی پی جی نے اسے کرسمس سے کچھ دیر پہلے یہ مسئلہ پارلیمان میں اٹھایا اور 11 جنوری کو ویسٹ منسٹر ہال میں ہونے والی بحث میں پھر سے اس معاملے کو اٹھایا۔

متعلقہ وزیر نے ہمارے سوالات کے جو جوابات دیے وہ بڑی حد تک مثبت تھے، لیکن ایک غیر معمولی پیش رفت میں ایف سی ڈی او نے تقریباً تمام جوابات کی’اصلاح‘ کر دی جو وزیر نے 24 گھنٹے کے بعد دیے – یہ ایسی صورت حال تھی جو میں نے بطور رکن پارلیمنٹ 20 سال سے زیادہ عرصے کے دوران کبھی نہیں دیکھی۔ اس سے خطرے کی گھنٹی بجی اور الجھن پیدا ہوئی خاص طور پر افغانستان میں رہنے والے ان کنٹریکٹرز کے لیے، جو ان حالات کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید بحث میں حکومت کے پاس ریکارڈ درست کرنے کا ایک اور موقع تھا، لیکن بدقسمتی سے ہمیں صرف ایک ہی ٹھوس وضاحت ملی کہ ’پیمائش کے آلے‘ جیسا کہ 11 جنوری کو بتایا گیا تھا، کی بجائےکنٹریکٹرز، سفارت خانے کے محافظوں اور شیوننگ کے تحت سکالر شپ کے تحت تعلیم کے لیے کوٹہ درحقیقت بالائی حد ہے۔

کوٹہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے: اگر کوٹہ پورا ہو جائے اور افغانستان میں اے سی آر ایس  کے اہل لوگ اب بھی موجود ہوں تو کیا ہوگا؟ بہر حال رضاکاروں یا ان لوگوں کی ہمت کی حد تک کوئی کوٹہ نہیں تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اب تک تقریباً 200 کنٹریکٹرز میں سے 47 کو حکومت نے اپنے خاندانوں کے ساتھ برطانیہ کے سفر کے لیے افغانستان چھوڑنے کی اجازت دے دی ہے۔ باقی ماندہ ڈیڑھ سو کنٹریکٹرز میں سے تقریباً 50 کی درخواستیں منظور کر لی گئی ہیں اور سکیورٹی کے حوالے سے جانچ پڑتال التوا میں ہے۔

گذشتہ سال موسم گرما میں درخواست جمع کروانے کے بعد حتمی قرار پانے والے ایک سو کنٹریکٹرز کو ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان شہریوں کے لیے برطانوی حکومت کے دوبارہ آبادی کاری  کے فلیگ شپ منصوبے کے تحت ایک بھی شخص کو برطانیہ نہیں لایا گیا۔

برطانیہ کی مدد کرنے والوں کو پناہ گاہ فراہم کرنے کے بارے میں حکومت کے پرجوش الفاظ تیزی سے کھوکھلےثابت  ہو رہے ہیں۔ حکومت کو باقی ماندہ درخواستوں پر فوری طور پر کارروائی کرنے اور ہمارے افغان ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے برطانیہ ان لوگوں کا قرض دار ہے، اور ہمیں انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

جان بیرن، بیزل ڈن اور بیلی ریکی سے کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمان ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ