افغانستان کے صوبے پروان میں حاجی ڈاکٹر محمد شیر زاد نے بچھوؤں کا ایک منفرد فارم بنا رکھا ہے، جس میں ان کے مطابق تین قسموں کے 49 ہزار بچھو موجود ہیں۔
ان کے اس فارم کی ابتدا 500 بچھوؤں سے ہوئی تھی۔
61 سالہ ڈاکٹر شیر زاد نے بتایا کہ بچھو دن بھر فارم کی پتھریلی زمین کے نیچے رہنے کے بعد رات کو نکلتے ہیں۔
ان بچھوؤں کی خوراک کے لیے وہ مزار شریف سے ایک خاص قسم کا کیڑا منگواتے ہیں۔ ایک کیڑا ایک بچھو کا دو دن کا کھانا ہوتا ہے، یوں وہ کل 13 کلو کیڑے ڈالتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’بچھوؤں کی نسل بڑھانے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے۔ اب تو سردی کا موسم ہے، لیکن اپریل، مئی، جون اور جولائی کے مہینوں میں ان کی نسل بڑھتی ہے اور ان سے زہر بھی حاصل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر شیر زاد کے مطابق فارم کا خرچہ زیادہ ہے لیکن ان کی آمدنی بھی اچھی ہوتی ہے۔
فارم میں کالے، پیلے اور ان دونوں رنگوں کے مکس قسم کے بچھو پائے جاتے ہیں، جن میں سے کالے بچھو کا زہر زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔
بقول ڈاکٹر شیر زاد: ’ہر بوتل میں سات گرام زہر ہوتا ہے جبکہ پیلے بچھو سےحاصل کردہ ایک گرام زہر کی قیمت 350 ڈالر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ زہر کے ایکسپورٹر نہیں بلکہ اپنے کام کے لیے بچھو پالتے ہیں۔ ’میں اپنے فارم کے بچھوؤں سے حاصل کردہ زہر سے برص (جلد پر سفید دھبوں) کا علاج کرتا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ 41 ممالک میں ان کے مریض ہیں۔ ’مجھ سے دبئی، ترکی، جرمنی اور چین سے لوگوں نے رابطہ کر کے زہر مانگا لیکن میں نے سب کو یہی کہا کہ یہ فروخت کے لیے نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر شیرزاد نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بہت زیادہ بچھو پائے جاتے تھے اور وہ بچپن میں انہیں پکڑ کر سکول میں لڑکوں کو ڈراتے تھے۔
’پھر جب میں شعبہ طب میں گیا تو پتہ لگا کہ ہم بچھو کے زہر سے کیا کیا دوائیاں تیار کرسکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شیر زاد کے مطابق انہوں نے 11 کتابیں لکھ رکھی ہیں، جس میں سے ایک کتاب کا نام ’نیش و نوش‘ ( ڈنک اور دوا) ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں کوئی بچھوؤں کا فارم بنانا چاہے تو وہ اس کی مدد کریں گے کیونکہ ’یہ کام انسانوں کی خدمت کے لیے ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں شاید کچھ عرصہ ہی زندہ رہوں تو میرے بعد دوسروں کو یہ کام جاری رکھنا چاہیے۔‘
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)