’یہ بدترین خواب جیسا ہے:‘ یوکرین میں جنگ کی اصل ہولناکیاں

دی انڈپینڈنٹ کی نامہ نگار نے یوکرین کو کس حالت میں پایا، جانیے اس تفصیلی رپورٹ میں۔

12 جنوری، 2023 کو بوچا کے علاقے میں ایک بوڑھا شخص روسی حملے کے دوران مارے جانے والے ناقابل شناخت افراد کی قبروں کے قریب سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

یوکرین کی دفاع فورسز نے ملک کے کئی حصوں سے روسی افواج کو پسپا کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے قصبوں اور شہروں کو روسی قبضے سے آزاد کرایا ہے۔

لیکن جیسے جیسے روسی فوجی پیچھے ہٹے ہیں، یوکرین کے باشندے گولہ باری سے تباہ حال علاقوں اور ممکنہ جنگی جرائم کی نشانیوں کو تلاش کرنے کے لیے واپس آئے ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کی نامہ نگار بیل ٹریو نے گذشتہ برس یوکرین کا سفر کیا اور تباہی کی علامات دیکھی۔

اس تفصیلی رپورٹ میں وہ یوکرین کے لوگ سے ملیں جو اپنے پیاروں کی قسمت کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ آپ کے بدترین خواب جیسا ہے۔ یوکرین کے کبھی ان خوابیدہ شہروں کو پوتن کے بموں نے تباہ کر دیا۔

بعض مقامات پر بمباری اتنی شدید تھی کہ لاشیں ملبے کے نیچے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے پڑی رہ گئی ہیں۔

اب جب کہ روسی فوج واپس چلی گئی ہے تو ریسکیو اہلکار ان تک پہنچ پائے ہیں۔ اسی دوران جنگی جرائم کے ممکنہ شواہد بڑھتے جا رہے ہیں۔

روس نے یوکرینی لوگوں پر ظلم کی تردید کرتے ہوئے ان الزامات کو بےجا قرار دیا ہے۔

لیکن روسی افواج سے آزاد کروائے گئے علاقوں میں شہری تشدد، قتل، اجتماعی قبروں، ریپ اور جبری گمشدگیوں کے شواہد کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

ٹروسٹینٹس شہر کی، جو روسی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جس پر روسی افواج کا ایک ماہ تک قبضہ رہا، وحشت اب سامنے آ رہی ہے۔

یہ واضح ہے کہ ٹروسٹینٹس کے اس ٹرین سٹیشن پر شدید لڑائی ہوئی۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ٹرینیں تباہ ہوئی ہیں، کھڑکیوں میں حفاظت کی خاطر گولہ بارود کے ڈبے رکھے گئے ہیں۔ سٹیشن کی عمارت کی دوسری جانب بے پناہ تباہی چاند پر زمین کی عکاسی لگتی ہے۔

لیکن اس مقام کے بارے میں اس سے زیادہ تاریک پہلو ہمیں شہریوں نے بتایا کہ ریلوے سٹیشن کی نیچے کئی لوگوں کو حراست میں رکھا گیا اور ان پر کم کز کم 10 روز تک تشدد کیا گیا۔

ہم نے ایسے ہی ایک شخص سے بات کی جس نے اپنی آب بیتی بیان کی۔ یہ آندرے ہیں ہمیں ان کی شناخت چھپانے کے لیے کہا گیا ہے۔

اس 33 سالہ شخص کو روسیوں نے گھر سے سامان لینے کے لیے نکلنے پر حراست میں لیا تھا۔

آندرے کا کہنا ہے کہ انہیں روسی فوجیوں نے گلی میں پکڑا، باندھا، آنکھیں بند کیں اور مارا پیٹا، بجلی کے جھٹکے دیے اور ریپ کی دھمکی دی۔

’وہ کہتے رہے کہ تم فوجی ہو اور معلومات اکھٹی کر رہے ہو۔ میں فوجی نہیں ہوں محض ایک عام شہری ہوں۔ میں نے کہا میں کچھ نہیں جانتا۔

’انہوں نے میرے کپڑے اتار کر کہا کہ وہ میرے اعضا کاٹ کر میرے منہ میں ڈال دیں گے۔ وہ میرا ریپ بھی کرنا چاہتے تھے۔ ایک فوجی نے کہا اب ہم تمھارا ریپ کریں گے۔

’وہ ہمیں سٹیشن کے نیچے اس مقام پر لے گئے جہاں ان کے علاوہ سات دیگر افراد کو کئی روز تک رکھا گیا اور تشدید کیا گیا۔ اس جگہ کی دیواروں پر ابھی بھی خون کے نشانات موجود ہیں۔

’ہمیں یہاں رکھا گیا۔ میں یہاں کھڑا تھا اور یہ میں نے اپنے سر سے کیا۔ شروع میں مجھے لگا کہ بہت زیادہ خون ہے۔ یہ میرا خون ہے۔ صرف میرا خون۔‘

جب آپ کو پیٹا گیا تو آپ نے خون اس دیوار پر صاف کیا۔

ہاں میں ہوش کھو بیٹھا تھا اور اس طرح دیوار کا سہرا لے کر کھڑا تھا۔

ایک اور قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک ساتھی تشدد سے ان کے سامنے ہلاک ہوگیا۔ دیگر دو کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔

مسلسل تشدد ہوتا تھا، مسلسل بےعزتی۔ ’یوکرینی مریں گے‘ اور دیگر گالیاں۔

وہ ہمارے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ انہوں نے تمام یوکرین پر قبضہ کر لیا ہے۔ صدر زولنسکی ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔ وہ مجھے مسلسل پیٹتے رہے۔

روس کی جانب سے 24 فروری، 2022 کو حملے کے آغاز کے بعد سے یہ کہانی محض ان ہولناک جرائم میں سے ایک ہے جو یہاں سرزد ہوئے۔

اس شہر کی پولیس روسی قبضے کے دوران یہاں موجود رہی۔ جب روسی چلے گئے تو انہیں یہاں پہلی ہاتھ بندھی اور تشدد شدہ لاش ملی۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ لاش یہاں گیراج سے ملی تھی۔ انہوں نے مجھے اس شخص کی لاش کی تصاویر دکھائی جس میں اسے سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا اور بری طرح سے مارا گیا تھا۔

تحقیقات کرنے والے پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ یہ لاش ان پانچ میں سے ایک تھی جن پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔ ایک ہمارے شہر پہنچنے سے ایک دن قبل ملی تھی۔

یہ واضح تھا کہ ان افراد کو آتشیں اسلحے سے ہلاک کیا گیا تھا۔

انہیں دل یا سر میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ اس کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ اور یہ لاشیں آخری نہیں ہیں کیونکہ ہمیں روزانہ نئی لاشیں ملتی رہتی ہیں۔

بندھی اور تشدد شدہ لاشیوں کا ملنا اب یوکرین میں ایک معمول ہے۔

یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے سات ہزار جنگی جرائم اور کم از کم 500 مشتبہ افراد کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

عالمی عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے یورپی اتحاد کے تفتیش کاروں کے ساتھ مل کر بین الاقوامی جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

صرف کیئف میں یوکرینی پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں 900 شہریوں کی لاشیں ملیں۔

اکثر کو گولیاں ماری گئی ہیں جس سے لگتا ہے کہ انہیں مختصر سماعت کے بعد مارا گیا ہے۔

اب ہم بوچا کے راستے پر ہیں جو کیئف سے 25 کلومیٹر مغرب میں ہے۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ یہاں کم از کم 300 شہری مارے گئے۔

حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہاں بھی کئی ہفتوں کے روسی قبضے کے دوران جنگی جرائم مرتکب ہوئے۔

یہ بم زدہ علاقے کی گلیوں میں سے ایک تکلیف دے سفر تھا۔ معجزاتی طور پر مقامی آبادی یہاں موجود اور محفوظ رہی۔

ایک تباہ شدہ سڑک پر ہماری ملاقات ایک 15 سالہ لڑکے سے ہوئی جو اپنے باپ کے ساتھ قتل کیے جانے سے معجزاتی طور پر بچ گیا۔

ان کے بچنے کی وجہ ایک روسی کمانڈر کی آخری لمحے پر مداخلت تھی۔

یہ انتہائی خوف ناک لمحہ تھا۔ لیکن میں نے اپنا خوف ظاہر نہ کرنے کی کوشش کی اور میں بہت شرمندہ تھا۔

اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ’چلو بوڑھوں کو مار دو اور جوانوں کو رکھ لو۔‘ لیکن کمانڈر نے انہیں ہمیں چھوڑنے کا کہہ دیا۔ انہوں نے ہمیں ایک گھنٹے تک زمین پر لیٹے رہنے کے لیے کہا۔

رومان خود قسمت تھے باقی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے چچا اور کئی ہمسایوں کو بازار سے سامان لانے کے دوران مار دیا گیا۔

بوچا بھر میں باغات کو قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ قبضہ کرنے والی روسی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کو دفنایا جا سکے۔

میں ایک مقامی شخص الیگزانڈر کی قبر پر گئی جنہیں اپنی کھڑکی میں سے ویڈیو بنانے پر سرعام ہلاک کر دیا گیا۔

ان کے ہمسائے الیکسے کے مطابق ان کی لاش دو دن تک یہاں پڑی رہی اور کتوں کی نذر ہونے والی تھی تاہم ہمسایوں نے فوجیوں سے کہہ کر انہیں دفنا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجموعی طور پر انہوں نے ہمارے علاقے میں تین افراد کو ہلاک کیا۔ تینوں مرد تھے۔ ان میں دو پہلے داخلی راستے سے جبکہ الیگزینڈر دوسرے داخلے راستے سے تھے۔

الیکسے نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کیسے روسی فوجیوں نے باقاعدہ طریقے سے ہر فلیٹ کو لوٹا۔

بوچا نے اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں دیکھیں ہیں کہ اجتماعی قبریں تیار کرنی پڑیں۔

مقامی پادری کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کتنوں کو دفنایا۔ انہوں نے سو کے بعد گنتی چھوڑ دی۔

فادر آندری

آل سینٹس چرچ

مردہ خانہ بھار ہوا تھا اوپر سے فریج کے لیے بجلی نہیں تھی۔ بہت سوں کو گولی ماری گئی تھی اور وہ زمین پر ڈھیر تھے۔

کئی نے اپنی گاڑیوں کے ذریعے فرار کی کوشش کی لیکن ڈرائیونگ کے دوران انہیں نشانہ بنایا گیا۔

ہم قریبی قبرستان تک نہیں جا پا رہے تھے لہٰذا ہم نے انہیں چرچ کے قریب دفنانے کا فیصلہ کیا۔

اس قبر کی اب دوبارہ کشائی ہوئی ہے اور اس میں دفن افراد کی شناخت کا طویل سلسلہ جاری ہے۔ لاشیں روزانہ مل رہی ہیں۔

واپسی پر ہمیں ایک نئی دریافت دکھانے لے آئے۔ یہ ایک روسی کیمپ تھا۔

یہ زخم کے نشانات ایسے ہیں جن سے اس شہر کے باسی ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آندرے کے ہاتھ مفلوج ہیں اور ٹانگوں پر زخم ہیں۔

ڈیما کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی ڈراؤنے خوابوں کا سامنا ہے۔

’میں اسے ہرگز یاد نہیں رکھنا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسا کسی اور کے ساتھ ہو۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا