اسیر ماؤں کے ساتھ جیلوں میں رہنے والے بچے بھی تفریح کے حقدار

کراچی کی سینٹرل جیل میں قیدی خواتین کے ساتھ مقیم بچوں کے لیے شہر کی ایک فلاحی تنظیم نے پکنک کا انتظام کیا جس میں بچوں کو چڑیا گھر لے جایا گیا۔

کراچی کی ایک فلاحی تنظیم  نے شہر کی سینٹرل جیل برائے خواتین میں اسیر ماؤں کے ساتھ رہنے والے بچوں کے لیے تفریح کا اہتمام کیا گیا۔

سینٹرل جیل برائے خواتین کراچی میں قید عورتوں کے ساتھ 300 کے قریب بچے سلاخوں  کے پیچھے زندگی گزار رہے ہیں۔

جیل سٹاف اور فلاحی تنظیم کے اہلکاروں نے ان معصوم بچوں کے لیے ایک دن کی پکنک کا انتظام کیا جس میں انہیں چڑیا گھر لے جایا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کراچی سینٹرل جیل پہنچی تو تمام بچے پکنک کے لیے تیار بیٹھے تھے۔

بچوں کی نگاہیں جیل کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں، جہاں ہر وقت کڑا پہرہ رہتا ہے۔

جیل کا مرکزی گیٹ کھلنے پر بچے پرندوں کی طرح جیسے اڑ کر باہر گئے اور ان کے انتظار میں کھڑی گاڑی میں سوار ہو کر ڈینزو پارک کی طرف روانہ ہو گئے۔

پارک پہنچنے پر اسیر ماؤں کے بچوں کی آنکھوں میں خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔

معصوم فرشتے کھلے چہروں کے ساتھ چڑیا گھر کے ہر پنجرے کے سامنے گئے اور جانوروں کو دیکھتے رہے۔

آٹھ سالہ صدف نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا: ’بہت دنوں بعد چڑیا گھر آئی ہوں جہاں بہت سے جانور دیکھنے کو ملے، لیکن امی کی کمی محسوس ہو رہی ہے، وہ ساتھ ہوتیں تو میں زیادہ انجوئے کرتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پانچ سالہ عبدالرحمٰن نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے چڑیا گھر آنے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔

تمام بچوں میں سب سے متحرک چھ سالہ ابراہیم کبھی سیلفی کے لیے پوز بناتے تو کبھی کسی سپر ہیرو کے انداز میں چل کر دکھاتے۔

ابراہیم کا کہنا تھا: ’بیرک میں مزہ نہیں آتا لیکن زُو میں بہت مزہ آرہا ہے۔‘

بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھنے والی ننھی بچی کا کہنا تھا: ’دل نہیں چاہ رہا زو سے واپس جیل جانے کا لیکن وہاں میری امی ہیں، جو میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔‘

فلاحی تنظیم کے امین الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دیواروں کے اندر رہنے والے بچے دوسرے بچوں کی طرح تفریح کا حق رکھتے ہیں اور انہیں یہاں لانے کا مقصد یہی ہے۔

 کراچی میں خواتین و بچوں کی جیل کی ڈی آئی جی شیبا شاہ کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ قیدی ماؤں کے بچوں بالکل بے قصور ہوتے ہیں اور زندگی کی آسائشوں پر اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا دوسرے بچے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان