مانچسٹر دھماکہ روکنے میں ناکامی پر ایم آئی فائیو کی معافی

برطانیہ کی داخلی سکیورٹی سروسز ایم آئی فائیو کے سربراہ نے 2017 میں مانچسٹر میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کو روکنے میں ناکامی پر معافی مانگ لی۔

ایم آئی فائیو کے ڈائریکٹر جنرل کین میک کیلم نے ایک بیان میں بم دھماکہ روکنے کا اہم موقع گنوانے پر اظہار افسوس کیا (سکرین گریب)

برطانیہ کی داخلی سکیورٹی سروسز ایم آئی فائیو کے سربراہ نے 2017 میں مانچسٹر میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کو روکنے میں ناکامی پر معافی مانگ لی۔

ایم آئی فائیو کے ڈائریکٹر جنرل کین میک کیلم نے جمعرات کو جاری بیان میں کہا کہ انہیں بہت افسوس ہے کہ ان کی خفیہ ایجنسی نے مانچسٹر کے ارینا گرانڈے میں ہونے والے ایک کنسرٹ کے دوران خودکش بم دھماکے کو روکنے کا ’اہم موقع‘ گنوا دیا۔

اس واقعے میں حملہ آور نے دیسی ساختہ خود کش بم سے اس وقت خود کو اڑا لیا تھا جب امریکی گلوکار کے شو کے بعد والدین اپنے بچوں کو لینے پہنچے تھے۔حملے میں بچوں سمیت 22 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
واقعے کی عوامی تحقیقات کے چیئرمین جان سانڈرز نے کہا کہ وہ یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ بم دھماکے کو روکا جا سکتا تھا لیکن اس بات کا ایک حقیقت پسندانہ امکان موجود تھا کہ قابل عمل انٹیلی جنس حاصل کی جاتی جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر اس حملے کو روکنے کے لیے کارروائی ممکن ہو سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ داخلی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو، جس کے افسران سے انہوں نے پرائیوٹ سماعتوں کے دوران پوچھ گچھ کی، تیزی سے کام کرنے میں ناکام رہی۔
سانڈرز نے مانچسٹر دھماکے کے بارے میں اپنی تیسری اور آخری رپورٹ کی اشاعت کے بعد یہ بیان جاری کیا جو 2005 کے لندن خودکش حملوں کے بعد برطانیہ میں بدترین حملہ تھا۔
سانڈرز کے بیان کے بعد کین میک کیلم نے کہا کہ انہیں ’شدید افسوس‘ ہے ان کی سروس حملے کو نہیں روک پائی۔
انہوں نے مزید کہا: ’خفیہ انٹیلی جنس کو اکٹھا کرنا مشکل ہے لیکن اگر ہم اپنے پاس موجود کم موقع سے بھی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاتے تو متاثرین کو شاید اس قدر خوف ناک نقصان اور صدمے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔‘
سانڈرز نے ایک میڈیا کانفرنس کو بتایا ’ایسی کارروائی کا ایک اہم موقع ضائع ہو گیا ہے جس سے حملے کو روکا جا سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ وہ یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی کہ متاثرین کے اہل خانہ مزید جاننا چاہتے ہیں، وہ قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے اس کی مزید تفصیلات دینے سے قاصر ہیں۔

ان کے بقول: ’کم از کم اس حملے کو روکنے کا ایک حقیقی امکان ختم ہو گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے ایک تباہ کن نتیجہ ہے۔‘
سانڈرز نے کہا کہ سکیورٹی ایجنسی 22 سالہ حملہ آور سلمان عبیدی کو 2014 سے جانتی تھی جنہوں نے جیل میں قید ایک بااثر عسکریت پسند سے ملاقات کی تھی جو انہیں شدت پسندانہ منصوبے کے لیے بھیجا جانا چاہتے تھے۔
سلمان عبیدی کے چھوٹے بھائی ہاشم کو 2020 میں ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کرنے کے جرم میں 55 سال قید کی سزا دی گئی تھی جب کہ تیسرے بڑے بھائی اسماعیل کو ثبوت دینے کے لیے انکوائری میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے سزا سنائی گئی تھی۔
دونوں بھائی لیبیا نژاد والدین کے ہاں پیدا ہوئے جو معمر قذافی کے دور میں برطانیہ ہجرت کر گئے تھے۔
وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے کہا کہ وہ ایجنسی اور پولیس کے ساتھ مل کر کام کریں گی تاکہ اس طرح کے خوف ناک حملے کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا سکے۔
سانڈرز کی پچھلی دو رپورٹس میں بھی سکیورٹی اور ایمرجنسی سروسز کے ردعمل میں ہونے والی دیگر کوتاہیوں اور غلطیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔
کچھ متاثرین کے لواحقین نے کہا کہ وہ ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتے جنہوں نے ان کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ