کیا کشمیری داستان ختم ہونے والی ہے؟

کچھ عرصے یہ مسئلہ خبروں کی زینت بنا رہے گا، سوشل میڈیا پر جنگ جاری رہے گی، پھر معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور چورن بیچنے والوں کو نیا چورن مل جائے گا۔

بھارت کو کشمیر سے سخت ردِ عمل آنے کی توقع تھی لہذا اس نے فیصلے سے پہلے ہی کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا (اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان کے دورہِ امریکہ کے بعد سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صورتحال انتہائی تشویش ناک ہونا شروع ہوئی۔

بھارتی فورسز کی اضافی نفری، نقل و حرکت، حریت پسند قیادت کی گرفتاریاں اور نظربندی سے کرفیو تک اور سوشل میڈیا پر غیرمصدقہ اطلاعات اور افواہوں سے لے کر مواصلات کے نظام کی بندش تک ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تشویش میں اضافہ ہوا کہ آخر ہونے کیا جا رہا ہے۔ اس وقت کوئی بھی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی تھی۔

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے لیے بل پیش کیا تو صورتحال واضح ہوئی۔ اس بل کو اکثریت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ بل کے حق میں 125 جبکہ 61 ووٹ مخالفت میں آئے۔

مذکورہ آرٹیکلز کی منسوخی سے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں؟

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر کا درجہ ریاست کا نہیں رہا بلکہ وہ تقسیم ہو کر ہندوستان کے زیر انتظام دوعلاقے بن گئے ہیں، جن میں ایک لداخ اور دوسرا جموں و کشمیر۔ دونوں علاقوں کا انتظامی والی وارث ایک لیفٹیننٹ گورنر ہو گا اور داخلہ امور اب وزیر اعلیٰ کے بجائے ہندوستان کا وزیر داخلہ چلائے گا۔

اس فیصلے کے بعد کشمیر میں تمام روایتی قانون ختم ہو گئے اور وہاں ہندوستانی قانون مکمل طور پر نافذ العمل ہو گیا۔

ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 360 کا اطلاق جموں و کشمیر اور لداخ پر بھی ہو گیا ہے۔ آرٹیکل 35 اے جو کشمیریوں کو خصوصی شہریت کے حقوق دیتا تھا وہ ختم ہو گئے ہیں۔

غیر کشمیری جموں و کشمیر میں جائیداد خرید اور سرکاری نوکری کر سکیں گے اور ان کے وہاں پر مستقل سکونت اختیار کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے ان آرٹیکلز کو ختم کر کے مہاراجہ کا ہندوستان کے ساتھ الحاق بھی ختم کر دیا۔ بھارت کا جموں و کشمیر کے ساتھ اب قانونی اور آئینی تعلق بھی ان آرٹیکلز کے خاتمے کے ساتھ ختم ہو گیا۔

آگے کیا ہو گا؟

بھارت کو کشمیر سے سخت ردِ عمل آنے کی توقع تھی لہذا اس نے فیصلے سے پہلے ہی کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ اب ہو گا کیا کہ کشمیری احتجاج کریں گے اور یہاں سے روایتی بیانات جاری ہوں گے۔

کچھ دن، کچھ مہینے یہ مسئلہ خبروں کی زینت بنا رہے گا، سوشل میڈیا پر جنگ جاری رہے گی اور پھر معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ چورن بیچنے والوں کو نیا چورن مل جائے گا۔

اس صورتحال میں کشمیری قوم کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قیادت اور وکیل کی آواز کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی آواز خود بنیں۔ متحد ہو کر ریاست کی وحدت بچانے کی کوشش کریں، سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کریں، ذمہ داری کا ثبوت دیں اور ہر فورم پر یک زبان ہوکر بات کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ