میری والدہ ہمیشہ سے ایک داستان گو رہی ہیں۔ افسانہ، قزاق، دوستی یا کچھ بھی ہو ان کے پاس ہر موضوع پر ایک کہانی ہوتی ہے۔
لیکن جو کہانی مجھے یاد رہ گئی اور مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی رہتی ہے وہ ان کی اپنی کہانی ہے یعنی انجینئرنگ میں ان کا قدم۔
ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں انڈیا کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں واحد خاتون طالب علم کے طور پر میری والدہ نے اس دقیانوسی سوچ کو توڑا کہ سٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی) مضامین صرف مردوں کا شعبہ ہے اور ایسا ان کے جنون کی وجہ سے تھا۔ سٹیم یعنی سائنسی مضامین نے انہیں علمی اور پیشہ ورانہ طور پر یہ حدود پھلانگنے کی اجازت دی اور انہیں تکنیکی انقلاب کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔
ان کے بعد کے 50 سالوں میں سائنسی مضامین پڑھنے والی خواتین نسبتاً مرکزی دھارے میں شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ فیوچر ٹیلنٹ پروگرام کے آغاز کا جشن منانے والی نوجوان خواتین اور مردوں سے ملنے کے لیے ڈاؤننگ سٹریٹ میں منعقد ایک استقبالیہ میں شامل ہو کر مجھے بے حد مسرت ہوئی۔
یہ پروگرام برٹش بیوٹی کونسل کی طرف سے شروع کیا گیا ہے جو سکینڈری سکول کے طلبہ کو بیوٹی انڈسٹری میں دستیاب وسیع مواقع سے روشناس کراتا ہے۔
اس سکیم میں سٹیم ایجوکیشن اور کیریئر کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے جس میں کاسمیٹکس کی دنیا میں مٹیریل سائنس سٹڈی سے لے کر ریٹیل مینجمنٹ میں ڈیٹا سائنس پلاننگ تک سائنسی مضامین شامل ہیں۔
میں اس دلچسپ میدان میں طلبہ کے لیے دستیاب امکانات دیکھ کر بہت خوش ہوئی لیکن سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس راستے پر چلنے کی ترغیب دی جائے۔
خوبصورتی کا سٹیم مضامین سے کیا تعلق ہے؟ ہماری کچھ شاندار برطانوی افراد کی کامیاب کہانیوں کے بارے میں سوچیں جن میں بوٹس سے بیوٹی برانڈ ’نمبرسیون‘ کی مصنوعات، ڈیم روڈک کی باڈی شاپ اور شارلٹ ٹلبری کی رنگا رنگ کاسمیٹکس۔
یہ تمام مصنوعات سائنس، مینوفیکچرنگ اور تکنیکی جدت کی مضبوط بنیاد پر قائم ہیں اور یہ ان کے تخلیق کاروں کے جذبے اور عزم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھیں۔
بلاشبہ بیوٹی انڈسٹری ان متعدد شعبوں میں سے ایک ہے جو سٹیم کیریئر کو فعال طور پر فروغ دے رہی ہے۔
درحقیقت اس صنعت میں ایسے شخص کے بارے میں سوچنا مشکل ہے جو جدت سازی کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے پورے برطانیہ میں سٹیم اپرنٹسشپس کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا ہے اور یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس پیشکش کا اتنے جوش و خروش سےخیر مقدم کیا جا رہا ہے جیسا کہ 2022 اور 2023 میں شروع کی گئی تمام اپرنٹسشپس (مرد اور خواتین) میں سے 36 فیصد سٹیم ایجوکیشن میں تھیں۔
ہم نے 2014 اور 2015 سے سٹیم اپرنٹسشپ لینے والی خواتین میں 40 فیصد اضافہ دیکھا ہے اور 2019 اور 2023 کے درمیان ہم نے کمپیوٹر سائنس کی ڈگریز کے لیے درخواست دینے والی خواتین میں 57 فیصد اور انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں 18 فیصد اضافہ دیکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایک بڑی چھلانگ تھی جب میری والدہ نے 1970 کی دہائی میں اپنی کمپنی میں واحد خاتون انجینئر کے طور پر کیریئر شروع کیا۔
ذاتی طور پر میں نے اپنے کیرئیر میں مقامی برطانوی برانڈز کو فروغ دینے اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے سٹیم مضامین کی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے جس میں مربوط اور جامع آن لائن چائلڈ کیئر ایجنسی، ایک نیا دور، نان انویسیئو وائرلیس فیوٹل مانیٹرنگ سسٹم اور طلبہ کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے مطالعہ کے وسائل شامل ہیں۔
برطانیہ کے ایسے کاروباروں کی ایک طویل فہرست جو سٹیم کی مضبوط بنیاد پر جدت کاری میں مصروف ہیں اور ان میں سے بہت سے بزنسز بانی خواتین چلا رہی ہیں۔
اگر ہم سائنس اور اختراع میں سرمایہ کاری جاری رکھیں تو برطانیہ دنیا کو تکنیکی دور میں لے جا سکتا ہے۔ لہذا ہمیں سٹیم مضامین میں تعلیم حاصل کرنے اور کامیابی حاصل کرنے والی خواتین کا جشن منانے کی ضرورت ہے اور اس کی مزید حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔
خواتین کے اس عالمی دن پر میں اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ وہ بھی اپنی نانی سے متاثر ہوں گی کہ وہ نئے افق کے بارے میں سوچیں، ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جو سٹیم کے اختراع پر بنائی گئی ہو اور اپنے شوق کو آگے بڑھائیں۔
میں منتظر ہوں کہ وہ اگلے 50 سالوں میں کیا کہانیاں سنائیں گی۔ مجھے امید ہے کہ 1960 کی دہائی میں انڈیا میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک نوجوان خاتون کی کہانی ان کے ذہنوں میں نقش ہو گی۔
آکشتا مرتی کاروباری خاتون، فیشن ڈیزائنر اور وینچر سرمایہ کار ہیں۔ وہ وزیرِ اعظم رشی سونک کی اہلیہ بھی ہیں۔
© The Independent