اقوام متحدہ نے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے کہا ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے ملک دنیا میں خواتین اور لڑکیوں پر سب سے زیادہ جبر کرنے والا بن گیا ہے اور خواتین تقریباً تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اقوام متحدہ کے مشن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کی ’تقریباً ساری توجہ ایسے قواعد نافذ کرنے پر رہی جن کی وجہ سے زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں بری طرح گھر تک محدود ہو کر رہ گئیں۔‘
زیادہ معتدل رویے کے ابتدائی وعدوں کے باوجود طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔
لڑکیاں چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔ خواتین کے کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے، مرد ساتھی کے بغیر سفر کرنے، حتیٰ کہ پارکوں یا حماموں میں جانے پر بھی پابندی ہے۔
خواتین کا سر سے پاؤں تک پردہ کرنا بھی ضروری ہے۔ انہیں ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے جس سے انسانی ہمددری کی بنیاد پر امداد کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا کے بیان کے مطابق: ’طالبان کی حکمرانی میں افغانستان کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ جابر ملک ہے۔‘
بعد ازاں انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ ’طالبان کا دعویٰ کہ انہوں نے ملک کو متحد کیا لیکن انہوں نے اسے صنفی اعتبار سے بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان اقوام متحدہ کو بتاتے ہیں کہ خواتین کو الگ تھلگ کرنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اسے حل کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان کی کامیابیوں کی بنیاد پر پرکھا جائے۔
ان حالات میں کہ جب دہائیاں جاری رہنے والی جنگ کے اثرات سے نکلنے کی ضرورت ہے، اوتن بائیفا نے کہا کہ مستقبل میں ملک کی ممکنہ ڈاکٹروں، سائنس دانوں اور صحافیوں کو ان کے گھر میں بند کر دیا گیا ہے۔ ان کے خواب چکنا چور کر دیے گئے اور ان سے قابلیت چھین لی گئی ہے۔
بائیفا کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے باہر دھکیلنے کے لیے ان کی مخصوص، دانستہ اور منظم کوششوں کا مشاہدہ کرنا تکلیف دہ رہا ہے۔‘
پابندیوں، خاص طور پر تعلیم اور این جی اوز میں کام پر پابندی کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی ہے لیکن طالبان کے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پابندیاں عارضی ہیں جو اس لیے لگائی گئیں مبینہ طور پر خواتین نے درست طریقے سے اسلامی حجاب نہیں کیا جا رہا تھا اور یہ کہ صنفی علیحدگی کے قوانین پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں تک یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی کا تعلق ہے، طالبان حکومت نے کہا ہے کہ پڑھائے جانے والے کچھ مضامین افغان اور اسلامی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
اوتن بائیفا نے کہا کہ ’دنیا کے سب سے بڑے انسانی اور معاشی بحران میں ملک کی نصف آبادی کو ان کے گھروں تک محدود رکھنا قومی سطح پر خود کو نقصان پہنچانے کا بہت بڑا عمل ہے۔‘
بائیفا نے خبردار کیا ہے کہ ’یہ نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کو حقوق سے محروم کرے گا بلکہ تمام افغانوں کی آنے والی نسلوں کے لیے غربت میں دھکیلنے سمیت امداد پر انحصار کرنے پر مجبور کر دے گا۔ یہ افغانستان کو اپنے شہریوں اور باقی دنیا سے مزید دور کر دے گا۔‘
وہ خواتین جو پہلے سرکاری ملازم تھیں یا ہائی سکول اور یونیورسٹی کی طالبات تھیں اب وہ کابل میں قالین بافی کے ایک کارخانے میں قالین بُن کر گزر بسر کرتی ہیں۔
22 سالہ حفیظہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب قیدیوں کی طرح رہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایک پنجرے میں بند ہیں۔‘
وہ طالبان کی طرف سے خواتین کے کلاسوں میں جانے پر پابندی سے پہلے قانون کی تعلیم کی سال اول کی طالبہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے بری صورت حال وہ ہوتی ہے جب آپ کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور آپ کو عورت ہونے کی سزا دی جاتی ہے۔‘