موجودہ فوجی قیادت کے سیاسی عزائم نہیں ہیں: خواجہ آصف

خواجہ آصف نے فوج پر حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے کسی ٹاسک فورس کے بنائے جانے کے بارے میں اخباری اطلاعات کی تردید کی اور کہا کہ ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ تاہم انہوں نے ایک حکومتی کمیٹی کی تشکیل کا اعتراف کیا۔

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف 26 دسمبر 2016 کو چینی اور افغان ہم منصب کے ساتھ بیجنگ میں مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے وزیر دفاع اور حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت کی اقتدار میں آنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور ملک میں مارشل لا کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اسلام آباد میں غیرملکی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی کے مارشل لا لگانے والے جرنیل ذاتی خواہشات رکھتے تھے۔ اس بارے میں انہوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ اور جنرل ضیا الحق کے نام لیے اور کہا کہ اس دور میں حالات ایسے نہیں تھے کہ ان کہ وہ حکومت پر قبضہ کرتے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی اس موقع پر موجود تھیں۔

خواجہ آصف نے فوج پر حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے کسی ٹاسک فورس کے بنائے جانے کے بارے میں اخباری اطلاعات کی تردید کی اور کہا کہ ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ تاہم انہوں نے ایک حکومتی کمیٹی کی تشکیل کا اعتراف کیا لیکن اس کی کوئی زیادہ تفصیل نہیں بتائیں۔

وزیردفاع خواجہ آصف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کی جانب سے امریکی حکومت کو لکھے گئے خط کے بارے میں کہا کہ ’اس جماعت نے پہلے امریکہ پر ان کی حکومت گرانے کا الزام عائد کیا اور اب ان سے ہی مدد مانگ رہے ہیں۔‘

انہوں نے حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے بارے میں اعتراف کیا کہ اس دوران انہوں نے سیاسی ساکھ اور قد کھویا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ انہیں احساس ہے کہ عدم اعتماد کے بعد حکومت لینے سے سیاسی نقصان ہوا ہے اور انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔

’ہمارے پاس اس وقت اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کے اعلان کا آپشن تھا لیکن ہم عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات میں تھے اور ان کی شرائط عبوری حکومت نہیں کرسکتی تھی جو ایک منتخب حکومت کرسکتی ہے۔ ہم نے یہ جانتے ہوئے کہ سیاسی نقصان ہوگا حکومت جاری رکھی اور آج بھی ہم نے صورت حال میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہر روز ایک بحران ہوتا ہے جو عمران خان کی جانب سے پیدا کیا ہوا ہے اور ہم اس سے نمٹ رہے ہیں اور ہم اس سے کامیابی کے ساتھ نکل آئیں گے۔‘

خواجہ آصف نے امید کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں معاشی صورت حال اور تمام چیزیں جو اس وقت خراب ہیں وہ ٹھیک ہوجائیں گی اور یہ حکومت ایک آئینی اقدام کے تحت آئی تھی لیکن اس اقدام کو روکنے کے لیے عمران خان کی اس وقت کی حکومت نے مختلف غیرآئینی طریقے اپنائے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواجہ آصف نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے بارے میں کہا کہ وہ ایسا ماضی میں بھی کئی بار کر چکے ہیں لیکن بات کہیں پہنچی نہیں۔ ’اگر وہ موجودہ تمام مسائل پر جامع مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو ہم بھی راضی ہیں۔ لیکن کسی ایک مسئلے پر بات چیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کے ان غیرآئینی کاموں میں صدرمملکت اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے، رات گئے اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ختم کرکے چیزیں ٹھیک کیں اور آج ہماری حکومت ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی ایک ملزم عدالت میں پیش ہونے سے انکار نہیں کرتا لیکن ٹیلی ویژن کی سکرینز پر چند ہفتوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ عمران خان عدالتوں میں پیش ہونے سے انکار کر رہے ہیں اور کئی وجوہات اس کی صفائی میں بیان کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں مسلم لیگ ن کی تقریباً پوری قیادت گرفتار ہوئی۔ ’ہمارے قائد نواز شریف نے گرفتاری دی اور سرینڈر کرنے کے لیے برطانیہ سے واپس آئے اور ان کی بیٹی گرفتار ہوئی۔ موجودہ وزیراعظم، ان کے بیٹے اور بھتیجے گرفتار ہوئے لیکن کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، مجھے گرفتار کیا گیا اور چھ ماہ جیل میں رکھا گیا، میری اہلیہ اور بیٹے تین سال تک عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں مارشل لا یا سیاسی حکومتوں کے دوران کارروائیاں ہوئیں لیکن اس طرح کے واقعات کبھی نہیں ہوئے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست