صدارتی ایوارڈ زیادہ نہیں معیاری کام پر ملا: بشریٰ فرخ

’میرے کئی جونیئرز کو بہت پہلے ہی ایوارڈز دیے جا چکے ہیں۔ لیکن میرا یہی سمجھنا ہے کہ صدارتی ایوارڈ زیادہ سال انڈسٹری میں گزارنے پر نہیں بلکہ بہترین پرفارمنس پر ملتا ہے۔ مجھے اگرچہ دیر سے ایوارڈ ملا لیکن معیاری کام پر ملا۔‘

بشریٰ فرخ کا دعوی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کی پہلی ہندکو خاتون ڈرامہ آرٹسٹ ہیں جنہیں صدارتی ایوارڈ ملا ہے (تصویر بشکریہ بشریٰ فرخ)

’یہ 1971 کی بات ہے۔ میں آٹھویں جماعت میں تھی، جب میں نے ریڈیو پاکستان کا آڈیشن دیا تھا۔ سٹیشن ڈائریکٹر نے اس وقت کے مشہور فیچر پروگرام ’قہوہ خانہ‘ میں مجھے کاسٹ کیا۔‘

’یہ پروگرام میں نے 15 سال جاری رکھا۔ جو ایک ریکارڈ تھا۔‘

خیبر پختونخوا کی ڈراما آرٹسٹ، ادیب، اور شاعرہ بشریٰ فرخ، جنہیں حال ہی میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ اگرچہ وہ 50 سال پرفارمنگ آرٹ سے وابستہ رہیں تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ صدارتی ایوارڈ انہیں دیر سے ملا۔

’میرے کئی جونیئرز کو بہت پہلے ہی ایوارڈز دیے جا چکے ہیں۔ لیکن میرا یہی سمجھنا ہے کہ صدارتی ایوارڈ زیادہ سال انڈسٹری میں گزارنے پر نہیں بلکہ بہترین پرفارمنس پر ملتا ہے۔ مجھےاگرچہ دیر سے ایوارڈ ملا لیکن معیاری کام پر ملا۔‘

بشریٰ فرخ کا دعویٰ ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کی پہلی ہندکو خاتون ڈرامہ آرٹسٹ ہیں جنہیں صدارتی ایوارڈ ملا ہے۔

بشریٰ فرخ نے ہندکو، اردو اور پشتو میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ انہوں نے 15 کتابیں لکھیں، جن میں سات نعتی مجموعے، شاعری اور ایک سفرنامہ شامل ہیں۔

’1971 میں جس وقت میں نے آغاز کیا تھا، اسلام آباد پی ٹی وی چکلالہ میں ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں صوبہ سرحد کے لیے ’آغوش کوہستان‘ کے نام سے ہر روز ایک گھنٹے کا ٹائم مقرر تھا۔ صوبہ سرحد کے فنکار تب ریکارڈنگ کے لیےچکلالہ جاتے تھے۔ تاہم جب 1974 میں پشاور میں فورٹ روڈ پر پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا۔ تقریباً 40 لوگوں میں میرا بطور پہلی اناؤنسر انتخاب ہوا۔‘

بشریٰ فرخ نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے جس زمانے میں بطور آرٹسٹ کام کرنا شروع کیا تھا، تب پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان میں کام کرنا ایک گالی سمجھا جاتا تھا۔ 

’یہی وجہ تھی کہ میرے آس پڑوس اور رشتہ داروں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کیا تھا۔ میری والدہ اس صورت حال کے دباؤ میں آگئی تھیں لیکن والد شیخ سلطان محمد نے مسلسل سپورٹ کیا۔ شادی کے بعد شوہر فرخ سیر سپورٹ کرتے رہے اور اسی لیے آج اس مقام پر ہوں کہ تعلیمی ادارے، خواتین کے سیمینار یا کانفرنسز ہوں، مجھے بطور رول ماڈل دعوت دیتے ہیں۔ اب تو دور کے رشتہ دار بھی ہوں تو لوگوں کو مجھے اپنا قریبی رشتہ دار بتاتے ہیں۔‘

بشریٰ فرخ نے بتایا کہ ان کی چار بیٹیاں ہیں، تاہم وہ اپنی والدہ کی طرح پرفارمنگ آرٹ کی طرف جانے کی رغبت نہیں رکھتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بشریٰ فرخ نے ڈرامہ انڈسٹری کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اس فیلڈ میں نہیں آئی تھیں، تو انہیں یہ سننے کو ملتا تھا کہ اچھی لڑکیاں اس شعبے میں نہیں جاتیں۔

’میں کہتی کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھا، جس کا انڈسٹری کے لوگوں نے بھی اعتراف کیا۔ لیکن آج 60 سال سے زائد عمر کے باوجود بھی میں پل صراط پر چل رہی ہوں۔ باہر کی دنیا میں دیکھا کہ ایک ذرا قدم ادھر سے ادھر ہوا تو عورت کی تمام اچھائیاں لوگ بھول کر اس کو برا بنا دیتے ہیں۔‘

بشریٰ فرخ کا بنیادی تعلق پشاور کےعلاقے کریم پورہ سے ہے۔ ان کی شادی پاکستان ٹیلی وژن پشاور سنٹر کے مایہ ناز پروڈیوسر فرخ سیر سے ہوئی تھی، فرخ سیر 1997 میں وفات پا گئے۔ 

بشریٰ فرخ سارک کی مختلف کانفرنسز میں تین دفعہ انڈیا گئی ہیں جہاں انہوں نے پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کا پیغام دیا۔ ان کی صدارتی ایوارڈ میں نامزدگی پاکستان اکیڈمی ادبیات اور پاکستان ٹیلی وژن پشاور سنٹر نے کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی