لاؤڈ سپیکر تنازع: بنوں میں علما اور پولیس آمنے سامنے

رواں ہفتے 29 مارچ کو ضلع بنوں میں تھانہ کینٹ پولیس نے ایک مسجد کے پیش امام کو لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کرکے ان پر مقدمہ درج کیا۔

ایک پولیس اور فوجی اہلکار 21 دسمبر 2022 کو بنوں میں چوکس کھڑے ہیں جہاں ایک پولیس سٹیشن کا محاصرہ ختم کرایا گیا ہے (اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں علما نے ڈی آئی جی بنوں پر علما کی توہین اور منبر و محراب کی مخالفت کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کو صوبائی حکومت سے ان کو ضلع بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب، ڈی آئی جی سید اشفاق انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انہیں بے جا ملوث کرکے درپردہ مقاصد پورے کیے جارہے ہیں۔‘

رواں ہفتے 29 مارچ کو ضلع بنوں میں تھانہ کینٹ پولیس نے ایک مسجد کے پیش امام کو لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کرکے ان پر مقدمہ درج کیا۔

بعدازاں وہ عدالت سے ضمانت پر رہا ہوئے، لیکن اس واقعے پر خصوصاً مذہبی حلقوں نے تنقید کی اور کہا کہ دراصل امام محض ختم القرآن کا بیان دینے کے بعد لاؤڈ سپیکر پر آدھا گھنٹہ دعا کرا رہے تھے۔

اس واقعے کی مذمت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور اس پر پولیس، انتظامیہ اور دیگر کے ساتھ ان کی بات چیت جاری تھی، کہ اس دوران پولیس نے علاقے کی ایک دوسری مسجد کے لاؤڈ سپیکر کو بھی بند کردیا، جس کے بعد علما اور ان کی پیروی کرنے والے احتجاج پر نکل آئے۔

احتجاج کی سربراہی کرنے والے علما اتحاد کے امیر مولانا عبدالغفار قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پچھلے سال سے بنوں کے مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر پابندی لگانے کا یہ تیسرا واقعہ ہے، جو کہ بے جا اور زیادتی پر مبنی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے دوسرے اضلاع یا دیہاتوں کے برعکس بنوں میں لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال نہیں ہوتا اور اس کا غیر ضروری یا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف انہوں نے ایک فتوی بھی جاری کر دیا ہے۔

’ہم لاؤڈ سپیکر کا صرف شرعئی استعمال کرتے ہیں۔ جس میں صرف روزانہ پانچ وقت اذان، جمعہ کا خطبہ، عید کا بیان اور رمضان میں ختم القرآن کا بیان اور دعا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جن مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا وقت بے وقت استعمال کیا جاتا ہو اس کے ہم خلاف ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا عبد الغفار نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں وہ احتجاج پر اس لیے مجبور ہوئے کہ پیش امام کو ناحق گرفتار کرکے بعدازاں ان کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تصویر کھنچوائی گئی۔

’بنوں کی تاریخ میں اس سے قبل کسی نے بھی لاؤڈ سپیکر کی ممانعت نہیں کی۔ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ موجودہ ڈی آئی جی کو یہاں سے تبدیل کیا جائے۔ گذشتہ روز تین اپریل کو ہم 45 علما نے کمشنر سے ملاقات کرکے انہیں حقائق سے آگاہ کر دیا ہے۔‘

مولانا نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ڈی آئی جی کے خلاف کوئی سیاسی سازش ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا مطالبہ صرف مذہبی بنیاد پر ہے اور اس میں جمعیت العلمائے اسلام یا کسی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی دخل نہیں ہے۔

دوسری جانب، ڈی آئی جی اشفاق انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس دن پیش امام کی گرفتاری عمل میں لائی گئی وہ لکی مروت میں تھے اور انہیں اس واقعے کا کوئی علم نہیں تھا۔‘

’اصولاً میرا نام اس واقعے سے جوڑنا ہی نہیں بنتا۔ کسی مسجد کا لاؤڈ سپیکر بند کرنا، ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتاری کرنا یہ ڈی آئی جی کا کام نہیں ہوتا کیوں کہ اس کی دوسری بڑی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ امام کی گرفتاری، ان کے مسجد کی لاؤڈ سپیکر پر پابندی ان کے احکامات پر نہیں عائد کی گئی، لیکن وہ اس معاملے پر اپنے ماتحت پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہیں۔

’چوں کہ پولیس نے کام قانونی کیا ہوا ہے، اس لیے میں ان کے ساتھ ہوں۔ پولیس کو شہریوں کی جانب سےشکایات موصول ہورہی تھیں کہ متعلقہ مسجد میں تیز آواز میں گھنٹوں مذہبی تقاریر ہوتی ہیں۔‘

ڈی آئی جی بنوں ریجن نے کہا کہ ’پاکستان میں سپیکر ایکٹ جن وجوہات کے تحت بنا ہے وہ دیکھنا چاہیے اور یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ ایکٹ صرف بنوں کے لیے نہیں پورے پاکستان کے لیے بنا ہے۔‘

ڈی آئی جی نے کہا کہ ان کے دفتر کئی علما ایسے آئے جنہوں نے احتجاج کرنے والوں اور قانون کی پاسداری نہ کرنے والوں کی مذمت کی۔

تاہم اشفاق انور نے کہا کہ وہ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور اگر علما یا کوئی اور ان کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو وہ تیار ہیں۔

دوسری جانب، مولانا عبدالغفار نے کہا کہ وہ اس معاملے پر قطعاً ڈی آئی جی کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ ’اگلے پیر‘ تک ان کو ضلع بدر دیکھنا چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان