علامہ اقبال کی عرب دنیا میں مقبولیت

اقبال کی نظم ’شکوہ‘ کا ترجمہ اس قدر مقبول ہوا کہ مشہور مصری گلوکار ام کلثوم نے بھی یہ نظم اپنی دلنشیں آواز میں گائی، جس پر حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

اقبال کی شخصیت اور فن پر عبدالوہاب عزام کی کتاب (ہنداوی پبلشر)

(علامہ محمد اقبال کی برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر)

علامہ اقبال کو برصغیرمیں شاعر مشرق کہا جاتا ہے، لیکن ان کی شاعری اردو اور فارسی بولنے والے ممالک تک محدود نہیں بلکہ عالم عرب میں بھی ان کا شمار بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکرین میں ہوتا ہے اور ان کی شخصیت، فلسفے، افکار اور اشعار سنجیدہ مباحث کا موضوع ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کا کلام جو کہ اردو اور فارسی میں ہے عرب تک کیسے پہنچا اور اس خوبی کے ساتھ کس نے پہنچایا کہ عرب نہ صرف اقبال سے بلکہ ان کے کلام میں پنہاں فلسفے اور پیغام سے بھی آشنا ہو گئے؟

’ہم پیام مشرق پڑھتے اور اس کے اشعار اور سوچ ہمیں متاثر کرتے، ہم (اس دیوان کو پڑھتے ہوئے) گویا ایک باغ میں سیر کرتے جس کے رنگینیاں اور رونقیں آنکھوں اور دلوں کی ٹھنڈک کا موجب تھی۔‘

یہ تاثرات اقبال کا کلام پہلی دفعہ پڑھنے پر مصر سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات اور سفارت کار عبدالوہاب عزام کے ہیں جن کا بعد ازاں اقبال اور ان کے کلام سے انتہائی مضبوط رشتہ بن گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ پیام مشرق پڑھنے کے بعد ان کے دوست احباب ان کو گاہے گاہے اقبال کے دیگر دیوان اور اشعار کے مجموعے بھیجتے رہے جن کو پڑھ کر وہ اقبال کے فلسفے اورطرز شاعری کے مداح ہو گئے اور اقبال کی شاعری کا عربی ترجمہ کرکے جرائد میں شائع کرنے لگے جن کے ذریعے عرب ادبا اقبال سے متعارف ہوئے۔

1931 میں علامہ اقبال نے فلسطین میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے مصر میں قیام کیا تو وہاں ان کے اعزاز میں ہونے والی تقریب میں عبدالوہاب عزام نے ہی اقبال کو حاضرین کے سامنے پیش کیا، تقریب کے بعد عزام کو اقبال سے مختصر ملاقات کا موقع بھی ملا جس میں اقبال نے ان کے کیے ہوئے اپنے اشعار کے عربی ترجمے کو سند بخشی۔

علامہ اقبال کی وفات اور پاکستان کے قیام کے بعد عبدالوہاب عزام پاکستان میں مصر کے سفیر کے تعینات ہوئے۔ اس دوران انہوں نے اپنے مشاغل سے وقت نکال کر باقاعدگی سے اقبال کے اشعار کا ترجمہ کرنا شروع کیا اور پیام مشرق، اسرار خودی، ضرب کلیم اور دیگر مجموعات کا عربی ترجمہ شائع کروایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبدالوہاب عزام کے اقبال سے تعلق کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ان کے پاکستان میں قیام کے دوران ان کے پاس ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ ’اقبال کے درویش‘ کے نام سے مجلس لگتی تھی جس میں اقبال کی شاعری سے شغف رکھنے والے لوگ جمع ہوتے اوران کے اشعار پڑھے جاتے اور ان پر گفتگو کی جاتی۔

عبدالوہاب عزام خود بھی بلند پایہ ادیب اور شاعر تھے۔ 1947 میں انہوں نے دہلی اور لاہور کا سفر کیا اور اس دوران اقبال کی قبر پر حاضری دی اور اقبال کی شان میں چند اشعار بھی کہے۔

عبدالوہاب عزام کی علمی قدر و منزلت یہ تھی کہ 1957 میں سعودی عرب میں پہلی ہونیورسٹی جامعہ الملک سعود قائم کی گئی تو سعودی حکومت نے عبدالوہاب عزام کو اس کا پہلا صدر مقرر کیا۔

عزام نے یہ ذمہ داری بھرپور انداز میں نبھائی اوریونیورسٹی کودرست سمت پر گامزن کیا اور 1959 میں اپنی وفات تک جامعہ کی صدار ت کے منصب پر فائز رہے۔

عبدالوہاب عزام کی وفات پر اس وقت کے سعودی وزیر تعلیم شہزادہ فہد بن عبدالعزیز (جو بعد ازاں سعودی فرمانروا بنے) نے کہا کہ عبدالوہاب عزام کی رحلت ان کے خاندان اوراہل مصر سے زیادہ ہمارا نقصان ہے۔

علامہ اقبال کی مشہور نظموں ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ کا مصر کے ایک اور ادیب اور شاعر صاوی الشعلان نے ’حدیث الروح‘ کے نام سے عربی ترجمہ کیا اور اس عمدگی سے کیا کہ عرب اہل نظر آج بھی اقبال کے مترجم مصرعوں کو پڑھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔

اس ترجمے کی عرب دنیا میں مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مشہور ترین مصری گلوکارہ ام کلثوم نے بھی یہ نظم اپنی دلنشیں آواز میں گائی، جس پر حکومتِ پاکستان نے انہیں 1967 میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

صاوی الشعلان کو بینائی سے محروم ہونے کے باجود اردو، فارسی اور عربی پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ وہ اشعار کا مسجع و مقفی ترجمہ کرتے، یعنی وہ اردو اشعار کا عربی نثر میں نہیں بلکہ شاعری میں مطلب بیان کرتے۔ صاوی جامعہ الازہر سے لسانیات میں فارغ التحصیل تھے، انہوں نے اقبال کے علاوہ علامہ سعدی، رومی، غالب اور کئی شعرا کے کلام کا عربی ترجمہ کیا۔

اس کے علاوہ دیگر شخصیات بھی ہیں جنہوں نے اقبال کے کلام کا عربی ترجمہ کیا۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف عالم و مفکر ابوالحسن علی ندوی نے ’روائع اقبال‘ (اقبال کے بہترین اشعار) کے نام سے کتاب لکھی جس میں انہوں نے اقبال کے منتخب اشعار کا ترجمہ کیا۔ یہ کتاب دمشق سے شائع ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ انہوں نے ابوالحسن ندوی نے 1951 میں علامہ اقبال کے افکار پر قاہرہ یونیورسٹی میں ’الانسان الکامل فی نظر اقبال‘ (انسانِ کامل، اقبال کی نظر میں) کے عنوان سے ایک لیکچر دے کر اقبال کی فکر کو عربی دنیا میں روشناس کروایا۔ اس کے علاوہ انہوں متعدد عربی جرائد میں اقبال کے بارے میں مضامین بھی تحریر کیے۔

ابوالحسن نے اپنی کتاب میں علامہ اقبال سے ملاقات اور ان سے ان کی شاعری کا عربی ترجمہ کرنے کی اجازت مانگنے کا بھی ذکر کیا ہے۔

’الجزیرہ‘ پرعلامہ اقبال کے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والے ایک بلاگ میں شامی ادیب زہیر ظاظا کا بھی ذکر ہے جنہوں نے بال جبریل کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب