پنجاب انتخابات: پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ کیسے جاری کیے؟

پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 297 حلقوں میں سے 285 حلقوں کے امیدواروں کے ناموں کی فہرست جاری کر دی جبکہ 12 امیدواروں کے نام ابھی طے نہیں کیے گئے۔

29 اکتوبر 2022 کی اس تصویر میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان لاہور میں لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے(اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 297 حلقوں میں سے 285 حلقوں کے امیدواروں کے ناموں کی فہرست جاری کر دی جبکہ 12 امیدواروں کے نام ابھی طے نہیں کیے گئے۔

پی ٹی آئی کے سینئیر رہنما فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس فہرست میں 60 فیصد نوجوان اور 15 فیصد خواتین شامل ہیں۔ مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے جن سابقہ چھ اراکین کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی بھی شامل ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں اکثریت ان امیدواروں کی ہے جو پہلے بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ چکے ہیں۔

فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن خواہش مند خواتین و حضرات کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا انہیں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

تاہم پارٹی ٹکٹس کی تقسیم کے بعد پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور تقسیم پر اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ایک اہم رہنما سے رابطہ کیا جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں اور ان کے 10 ساتھیوں کو ایک روز قبل صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن پھر کچھ سینئیر پارٹی رہنما عمران خان سے ملے جس کے بعد جمعرات کی صبح ان سمیت پانچ امیدواروں کے نام فہرست سے نکال دیے گئے۔

مذکورہ رہنما کا کہنا تھا وہ آئندہ انے والے دنوں میں عمران خان سے ذاتی طور پر ملاقات کر کے اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کروائیں گے کیوں کہ وہ گذشتہ ایک دہائی سے پارٹی سے منسلک ہیں۔

پی آٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ فہرست کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے 2018 میں اپنی جیتی ہوئی نشتسوں پرزیادہ تر ان ہی امیدواروں کو برقرار رکھا ہے۔

  • پی پی 03 اٹک سے پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری کے عزیز یاور عباس بخاری۔
  • پی پی 14 راولپنڈی سے راجہ بشارت جو وزیر قانون تھے، پی پی 24 چکوال سے حافظ عمار یاسر جو سابق صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ پی پی 17 راولپنڈی سے فیاض الحسن چوہان جو صوبائی وزیر اطلاعات رہ چکے ہیں۔
  • پی پی 23 چکوال سے فوزیہ بہرام کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ فوزیہ بہرام پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان کی عزیزہ ہیں اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر متعدد بار انتخاب لڑ چکی ہیں اور دو بار رکن صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہو چکی ہیں۔
  • پی پی 32 گجرات سے سابق وفاقی وزیر چوہدری مونس الٰہی جو اس وقت سپین میں ہیں کو ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ پی پی 34 گجرات سے سابق وزیر اعلیٰ اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
  • پی پی 97 فیصل آباد سے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی افضل ساہی کے بیٹے اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی کے داماد علی افضل ساہی کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا جبکہ ان کے والد کو پی پی 98 فیصل آباد سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔
  • پی پی 107 فیصل آباد سے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر رانا آفتاب احمد خان کو ٹکٹ دیا گیا۔ رانا آفتاب احمد خان پاکستان پیپلز پارٹی ایک بہت بڑا نام تھے۔ ماضی میں یہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں بھی ہوتا تھا لیکن انہوں نے 2018 کے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اسی حلقے سے انتخاب بھی لڑا مگر جیت نہ پائے۔
  • پی پی 122 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آشفہ ریاض فتیانہ کو ٹکٹ ملا۔ آشفہ ریاض فتیانہ، مشرف دور میں ق لیگ سے صوبائی وزیر رہ چکی ہیں جبکہ ان کے شوہر ریاض فتیانہ مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ ق اور آزاد حیثیت میں انتخاب جیتتے رہے ہیں۔ وہ متعدد بار مختلف سیاسی جماعتوں سے صوبائی و وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے کئی انتخابات آزاد امیدوار کے طور پر بھی جیتتے رہے ہیں۔
  • پی پی 126 جھنگ سے غلام بی بی بھروانہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو 2002 میں رکن پنجاب اسمبلی اور 2013 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں تھیں۔
  • پی پی 155 لاہور سے پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
  • لاہور سے بیشتر امیدوار وہی ہیں جو پہلے بھی اپنے حلقوں سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ چکے ہیں۔ ان میں میاں محمود الرشید ، میاں اسلم اقبال اور ڈاکٹر یاسمین راشد جو سابق صوبائی وزرا تھے بھی شامل ہیں۔
  • پی پی 203 خانیوال سے سید خاور علی شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو سابق سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر سید فخر امام کے قریبی رشتے دار ہیں۔ انہوں نے 2018 کا انتخاب آزاد امیدوار کے طور پر جیتا اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس سے قبل بھی یہ متعدد بار رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔
  • پی پی 217 ملتان سے مخدوم شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی اور بعد میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
  • پی پی 239 بہاولنگر سے شوکت علی لالیکا کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے اہم رہنما عبدالستار لالیکا کے قریبی عزیز ہیں اور ماضی میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
  • پی پی 260 رحیم یار خان سے سابق صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت جو سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے چھوٹے بھائی ہیں کو ٹکٹ دیا گیا۔
  • پی پی 274 مظفر گڑھ سے جمشید دستی جنہوں نے حال میں ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے کو ٹکٹ دیا گیا ہے اس سے پہلے جمشید دستی آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔
  • پی پی 286 ڈیرہ غازی خان سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ لیہ، ڈٰیرہ غازی خان اور راجن پور کے حلقوں سے وہاں کے قبائلی سرداروں یا ان کے رشتے داروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

امیدواروں کا انتخاب کیسے کیا گیا؟

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی جنوبی پنجاب سکندر فیاض بھڈیرہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اس مرتبہ پارٹی نے نہ ہی ٹکٹ کے لیے درخواستیں طلب کیں اور نہ ہی ٹکٹوں کے لیے کوئی فیس طلب کی کیوں کہ اس طرح ہر حلقے سے 15 سے 20 کے قریب درخواستیں موصول ہو جاتیں جس کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے چیئرمین عمران خان اور ان کی طرف سے قائم کیے گئے سلیکشن بورڈز نے امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا اور عمران خان نے ذاتی طور پر ٹکٹس کا فیصکہ کیا۔‘

انٹرویو میں کیا سوالات پوچھے گئے؟

پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پی پی 118 تک کے امیدواروں سے عمران خان نے ذاتی طور پر انٹرویو کیا لیکن اس کے بعد وقت کی کمی کے باعث وہ ایسا نہ کر سکے جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے امیدواروں کے انٹرویو نہیں کیے جاسکے۔ ‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’عمران خان نے انتہائی دلچسپ انٹرویو کیے جس میں انہوں نے پوچھا کہ آپ نے ماضی میں پارٹی کے لیے کیا کیا؟ اگر آپ منتخب ہو گئے تو حلقے میں کیا تبدیلی لائیں گے؟‘

امیدواران سے کچھ سوالات معلومات عامہ کے بھی تھے جیسے کہ یوکرین اور روس کی جنگ کے بین الااقوامی سیاست اور معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے؟ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہونے کے بعد پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ رہنما نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہر ایک امیدوار کا نام عمران خان نے خود فائنل کیا اور اس میں کسی کا دباؤ نہیں لیا جیسے کہ مسلم لیگ ضیا جو کہ اب پی ٹی آئی میں ضم ہو چکی ہے نے تین ٹکٹ مانگے تھے لیکن انہیں صرف ایک دیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی نامہ نگار و تجزیہ کار ماجد نظامی کے خیال میں ’پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ امیدواروں کی فہرست موروثی امیدواروں اور نوجوانوں کا امتزاج ہے۔ ‘

ان کے مطابق ’موروثی امیدواروں میں چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی کو ٹکٹ ملا، سابق سپیکر افضل ساہی اور ان کے صاحب زادے علی افضل ساہی کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے۔‘

’اسی طرح غلام بی بی بھروانہ جو رکن قومی اسمبلی تھیں انہیں اور ان کی والدہ کو بھی ٹکٹ ملا۔ چوہدری ظہیر الدین کے بھتیجے کو ٹکٹ ملا ہے۔ فہرست میں ایسے کئی نام ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ موروثی سیاست میں عمران خان نے لوگوں کو ایڈجسٹ کیا ہے۔‘

ماجد نظامی کے مطابق ’پی ٹی آئی نے انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن اور یوتھ ونگ کے لڑکوں کو بھی موقع دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور میں زیادہ تر پارٹی ورکرز کو شامل کیا گیا جو ٹاؤنز کے صدر تھے جیسے پی پی 145 سے آصف بھنڈر جو راوی ٹاؤن کے صدر تھے۔ پی پی 148 سے عبدالکریم خان جو شالیمار ٹاؤن کے صدر تھے۔ اسی طرح پی پی 146 سے ملک وقار ہیں جن کا 2018 میں ٹکٹ رہ گیا تھا۔‘

ماجد کا کہنا تھا کہ ’ایک الزام جو حالیہ سننے میں ملا کہ کئی لوگوں نے پارٹی فنڈ دے کر ٹکٹ لیے ہیں تو اس میں ایک مثال یہ سامنے آئی ہے کہ پی پی 149 سے میاں عباد فاروق جو کہ ایک بہت غیر معروف سا نام ہے۔ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے ایک کروڑ روپے دے کر پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، انہیں بھی ٹکٹ دی گئی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں پیسے دے کر ٹکٹ لینے کے حوالے سے جوآڈیو لیکس ہوئیں تھیں ان کی تصدیق بھی ہو رہی ہے۔‘

ماجد نظامی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’پاکستان مسلم لیگ ق کے اراکین صوبائی اسمبلی کو گجرات، چکوال، سیالکوٹ اور بہاولپور میں ایڈجسٹ کیا گیا۔‘

ماجد نظامی کے خیال میں: ’شہروں میں جو امیدوار سامنے آئے ہیں وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں جسے دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ پارٹی کا خیال ہے کہ عمران خان کی مقبولیت پر ہی انتخاب لڑ لیا جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس امتزاج کا کیا اثر ہوتا ہے کیوں کہ حلقوں کی سیاست میں حلقے میں بیٹھ کر گراس روٹ لیول پر کام کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ بے شک مقبولیت کی لہر چل بھی رہی ہو تب بھی لوگ حلقے سے ہار جاتے ہیں اب حلقے میں بیٹھ کر کرنے والا کام ان امیدواروں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست