مذاکرات میں عمران خان کی ناکامی ہو گی

عمران خان کی جانب سے فوری انتخابات کی شرط پر اصرار سے مذاکرات میں ڈیڈلاک آنے کا خدشہ ہے کیونکہ حکومتی اتحاد اس وقت اکتوبر سے قبل الیکشن کرانے کے موڈ میں نہیں دکھ رہی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان 15 مارچ 2023 کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہے ہیں  (اے ایف پی)

اس وقت پاکستان میں سیاسی پارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، ملک میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے سیاسی جماعتوں پر مذاکرات کے لیے زور دینے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا باضابطہ آغاز تو ہوگیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ کہنا مشکل ہے۔

ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کے لیے مذاکرات مسلسل جاری ہیں۔ سینیئر سیاست دان اور حکومتی عہدیداروں پر مشتمل سات رکنی حکومتی کمیٹی جس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت دیگر سیاست دان شامل ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے سے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹرعلی ظفر شامل ہیں۔

ان مذاکرات کا مقصد ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کے انعقاد کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔  

گذشتہ کچھ عرصے سے ملک میں جس طرح کی سیاسی و آئینی عدم استحکام اور بحرانوں کا سلسلہ دیکھ رہا ہے ایسے میں مذاکرات کی یہ کوششیں قابل قدر ہیں۔

اس وقت دونوں فریقین ایک ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کررہی ہیں اور یہ ملک اور قوم کی ترقی کے لیے واحد اور بہترین راستہ ہے۔

اس بات کا اظہار مجھ سمیت تقریباً تمام صحافتی برادری نے بارہا کیا ہے کہ ملک میں مثبت اور دیرپا استحکام کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنی انا کوختم کر کے ایک پیج پر آنا لازمی ہے۔

مذاکرات کے لیے دونوں جانب سے کمیٹیوں کا قیام انتہائی احسن اقدام ہے اور جمہوریت کا حسن بھی اسی میں ہے کہ تمام مسائل کو مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے حل کیا جائے، اب مذاکرات سے مسائل حل ہوں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس وقت جو حالات ہیں اس سے یہ چیز تو واضح ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

عمران خان کی جماعت مذاکرات کی ٹیبل پر تو بیٹھ گئی مگر عمران خان نے خود مذاکراتی ٹیم کو یہ واضح اور ٹھوس ہدایت جاری کی ہے کہ اگر حکومت فوری الیکشن کا انعقاد کرنے پر رضامند ہوگی تو مذاکرات ممکن ہیں ورنہ مذاکرات نہ ہوں گے۔

عمران خان کی جانب سے فوری انتخابات کی شرط پر اصرار سے مذاکرات میں ڈیڈلاک آنے کا خدشہ ہے کیونکہ حکومتی اتحاد اس وقت اکتوبر سے قبل الیکشن کرانے کے موڈ میں نہیں دکھ رہی اور ذرائع کے مطابق حکومت  کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی شرائط پر عمل درآمد بہت مشکل ہے۔

ن لیگ اور اس کی اتحادی حکومت کے لیے صورت حال اس وقت ایک عجیب سی  کشمکش کا شکار ہے جہاں ایک طرف شہباز شریف اور ان کی حکومت پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی لیکن ان انتہائی سنجیدہ اور غیر معمولی حالات کے باوجود حکومت پنجاب میں الیکشن کرانے کے کے لیے راضی نہیں ہو پارہی ہے۔

انتخابات کے حوالے سے مذاکرات پر اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈلاک برقرار ہے لیکن دونوں طرف سے تعطل کی تصدیق یا تردید نہیں ہوئی ہے البتہ مذاکرات فی الحال منگل تک ملتوی ہوئے ہیں۔

مذکرات کے لیے حکومت کی جانب سے بارہا اپوزیشن کو انتخابات کی تاریخ  پر لچک کا مظاہرہ کرنے کا کہا جا رہا ہے لیکن پی ٹی آئی قیادت عمران خان کی دی گئی ہدایات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نظر نہیں آرہی ہے۔

اب اگر صورت حال اسی طرح رہی تو کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نہیں دکھائی دے رہا مگر گذشتہ روز ہونے والے مذاکرات سے قبل جب عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے آئے تو اس دوران پولیس کی جانب سے متعدد پی ٹی آئی  کارکنان کی گرفتاری عمل میں آئی جس سے خدشہ پیدا ہوگیا کہ ایک طرف مذاکرات کی باتیں چل رہی لیکن دوسری جانب اپوزیشن ارکان کی پکڑ دھکڑ مسلسل جاری رہی تو ایسے میں مذاکرات کیسے ہوں گے۔

لیکن حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنوں کی فوری رہائی سے حکومت کی جانب سے مذکرات میں سنجیدگی کا ادراک ہوتا ہے، شہباز حکومت اس وقت مذاکرات کے کامیاب ہونے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے بھی ان کے اس عمل کو نیک شگون قرار دیا۔

ملک میں انتخابات کے لیے اب اگر ان مذاکرات سے بھی کوئی حل نہیں نکلتا تو آئندہ صورت حال کیا ہوگی یہ بھی ایک غورطلب موضوع ہے کیونکہ اس صورت میں ایک بار پھر سب کی نظریں  سپریم کورٹ کی جانب راغب ہوں گی اور ان کا کیا فیصلہ ہوگا یہ ایک الگ بحث ہوگی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے  مذاکرات کی بات کے بعد سیاسی جماعتوں ایک ساتھ بیٹھ تو گئیں مگر کیا ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا بھی یا نہیں؟

اب اگر یہ مذاکرات ناکام ہوں گے تو سپریم کورٹ کیا کرے گی، کیا شہباز حکومت پر توہین عدالت کا الزام لگے گا اور وہ نااہل ہوجائیں گے؟ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں حکومت کے پاس مزید کون سے آپشنز بچتے ہیں یہ بھی غور طلب ہے۔

دوسری جانب اگر مذاکرات سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو پی ٹی آئی کیا کرے گی  یہ بھی اہم ہوگا۔ کیا عمران خان حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیےایک دفعہ پھر سڑکوں کا رخ کریں گے یا پھر وہ سپریم کورٹ کے حکم کا انتظار کریں گے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ نے بھی ملک میں موجودہ سنگین حالات کے پیش نظر الیکشن آگے بڑھانے کا کہا تو اس صورت میں عمران خان اور ان کی جماعت کیا کرے گی۔

اب منگل کو مذکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے۔

مذاکرات کے حوالے سے اس وقت دونوں جانب تحفظات ہیں، پی ڈی ایم کی اس وقت ساری توجہ الیکشن کو سال کے آخر تک لے جانے پر مرکوز ہے اور وہ کسی طرح اکتوبر یا اس کے بعد الیکشن کرانے کی کوششوں میں ہے۔ ان کوششوں کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کافی  اونچی پرواز کررہی ہے اور ایسی صورت حال میں الیکشن اگر ہو گئے تو ان  کو یہ خدشہ ہے کہ وہ بری طرح سے ناکام ہوں گے۔

اس لیے اس صورت حال سے بچنے کے لیے ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن کی تاریخ آگے بڑھے اور ان کو الیکشن میں اترنے کے لیے بیانیہ بنانے اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ وقت ملے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے تحفظات بھی اسی حوالے سے ہیں۔ اس صورت حال سے یعنی عمران خان کی مقبولیت کی حالیہ لہر سے فائدہ اٹھایا جائے اورفوری الیکشن کروا کر اپنا ووٹ بینک مضبوط کریں اور اس سلسلے میں انہوں نے حکومت کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ وہ قبل از وقت  بجٹ لائیں اور الیکشن کے لیے پیسے فراہم کریں اور اسمبلیاں تحلیل کر کے جولائی میں انتخابات کرائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذرائع سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ حکومت لچک کا مظاہرہ کر کے اگست یا ستمبر میں الیکشن کرانے کے لیے رضامند ہوسکتی ہے لیکن پی ٹی آئی ابھی بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور فوری الیکشن کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔

اب ان مذاکرات سے کون مستفید ہوتا ہے، کس کا نقصان ہوگا، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا  لیکن  حالیہ صورت حال  سے یہ بات واضح ہو رہی  ہے کہ دونوں فریقین اس وقت اپنی بھی سیاست بچانے کے فکر میں ہیں۔ اور کسی طرح حالات کو اپنے حق میں کرا کر الیکشن میں جیت کی راہ ہموار کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

مذاکرات کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے  قومی اسمبلی سے گذشتہ دنوں لیا جانے والا اعتماد کا ووٹ بھی اس وقت اہمیت کا حامل ہے۔ اعتماد کے ووٹ میں 180 ارکان قومی اسمبلی نے شہباز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا جس کا مطلب ہے کہ ان پر اعتماد کرنے والے ارکان کی تعداد ان کے انتخاب کے دوران پڑنے والے 174 ووٹوں سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

اس سے حکومتی اتحاد میں پڑنے والی دراڑوں کی خبریں بھی ختم ہوگئی ہیں۔ اب یہاں یہ بات آتی ہے کہ  شہباز شریف نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے کیا پیغام دیا ہے۔ کیا ان کا مقصد یہ تھا کہ حکومتی اتحاد اب بھی مضبوطی سے یکجا ہے یا پھر ان کی جانب سے اس عمل کا مقصد کچھ اور تھا۔

ان کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ارکان پارلیمنٹ کے لیے ظہرانے کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں انہوں نے خطاب کے دوران ایک دفعہ پھر پارلیمان کے سپریم ہونے پر زور دیا۔

کیا شہباز شریف اعتماد کے ووٹ سے ایک بار سپریم کورٹ سے مخاطب ہیں اور ان کے لیے اس عمل سے کوئی پیغام تھا، یہ تو وقت بتائے گا۔

ملک میں استحکام کی خاطر سیاسی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اب ان کے پاس اپنے ہاتھ بندھے ہونے کا بیانیہ بھی نہیں بچتا کیونکہ اسٹیبلشنٹ اور عدلیہ، سب نے  سیاست دانوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا کہہ دیا ہے۔

اب اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو 23 کروڑ عوام پر جتنی مشکلات ہیں ان سب کی ذمہ دار سیاسی قیادت ہی ہوگی۔ اور وہ اس سے  بری الذمہ نہیں ہوسکتی ہیں ۔ امید ہے جس طرح سیاسی جماعتیں میں ملک میں انتخابات کے لیے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات کررہی ہیں اسی طرح وہ آئندہ عوامی مسائل پر بھی اتفاق رائے سے فیصلے کریں گی اور مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کو تھوڑا ریلیف فراہم کریں گی۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی آرا پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر