برطانیہ میں بلدیاتی الیکشن، حکمران جماعت کو بڑی شکست

ملک بھر میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں نتائج کے مطابق وزیر اعظم رشی سونک کی کنزرویٹیو پارٹی کو بڑی شکست ہوئی ہے۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ کی طرف سے جاری کردہ اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک 26 اکتوبر، 2022 کو لندن میں ہاؤس آف کامنز میں بطور وزیراعظم سوال جواب سیشن میں جواب دے رہے ہیں (اے ایف پی/ جیسیکا ٹیلر/ برطانوی پارلیمنٹ)

برطانیہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کے موصولہ نتائج کے مطابق وزیر اعظم رشی سونک کی کنزرویٹیو پارٹی کو بڑی شکست ہوئی ہے۔

لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ امیدواروں دونوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ٹوری ارکان پارلیمنٹ نے اس شکست کو پارٹی کے ’خوفناک‘ رات قرار دیا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق برطانیہ میں پہلی بار نئے قواعد کے تحت مقامی کونسلوں کے انتخابات ہو رہے ہیں جن کے تحت ووٹروں کے پاس ایسی شناختی دستاویز کا ہونی ضروری ہے جس پر ان کی تصویر لگی ہوئی ہو۔

انتخابات کروانے والے ادارہ کا کہنا ہے کہ ’افسوس کی بات‘ ہے کہ بعض رائے دہندگان کے پاس یہ دستاویز نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں پولنگ سٹیشن سے واپس بھیج دیا گیا۔

اب تک کنزورویٹیو ارکان ٹام ورتھ، برینٹفرڈ اور نارتھ ویلز لیسٹرشائر کی کونسلوں میں کنٹرول  کھو چکے ہیں جب کہ لیبر پارٹی کنزورویٹیو کی جگہ ہارٹل پول اور وورسٹر میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

لیبر پارٹی نے پلائے ماؤتھ میں اوسط سے زیادہ کامیابی سمیٹی ہے جس شہر کے وسط میں درخت کاٹنے کے تنازع کی اچھی عکاسی ہو سکتی ہے۔

لیبر پارٹی نے سٹوک آن ٹرینٹ میں اکثریت حاصل کر لی ہے جس سے کسی جماعت کو کونسل میں مجموعی غلبہ حاصل نہیں رہا۔

سینیئر کنزورویٹیو رہنماؤں ان ناکامیوں کو وسط مدتی ’عارضی‘ مسئلہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن 2024 میں عام انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خدشات رہیں گے کہ لیبر پارٹی نے شمالی، جنوبی علاقوں اور مڈلینڈز میں نقصان اٹھایا ہے۔

230 مقامی کونسلوں میں سے 25 کونسلیں جہاں انتخابات کروائے جا رہے تھے، کے مکمل نتائج کے مطابق کنزورویٹیو پارٹی کو 36 کونسلروں کی شکست کی شکل میں خالص نقصان ہوا ہے۔

لیبر پارٹی کے 38 کونسلروں کو خالص کامیابی ملی جب کہ مجموعی طور پر آٹھ لبرل ڈیموکریٹ امیدوار جیت سکے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر اعظم رشی سونک کی کنزورویٹیو پارٹی کو ان کے گذشتہ سال افراتفری سے بھر پور ہفتوں کے دوران ملک کے تیسرے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلے بڑے انتخابی معرکے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

دہائیوں میں پہلی مرتبہ مہنگائی کے بدترین بحران کے ماحول میں برطانیہ بھرکے مختلف حصوں میں بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات ملک میں اگلے سال متوقع عام انتخابات سے قبل واضح ہو جائے گا کہ بڑی جماعتیں کون کون سی ہیں۔

سونک تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی جماعت نے ووٹروں کے معاملے میں ’سخت‘ آزمائش کا سامنا کیا۔ وہ گذشتہ سال بورس جانسن، اور لِزٹرس کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم بنے۔

گذشتہ بدھ کو ایک تھنک ٹینک کے زیر اہتمام تقریب میں رشی سونک کا مبینہ طور پر کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے اچھے کونسلر اپنی نشستوں سے محروم ہو جائیں گے۔‘

’مجھے وزیر اعظم بنے صرف چھ ماہ ہوئے ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ ہم اچھے جا رہے ہیں۔‘

اتوار کو شاہ چارلز سوم کی تاج پوشی سے قبل جمعے کو رات گئے تک زیادہ کونسلوں کے انتخابی نتائج سامنے آ جانے چاہییں۔

شناختی دستاویز کی تبدیلی

قومی انتخابات میںحزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے کنزورویٹیو پارٹی پر دوہرے ہندسے کی برتری حاصل کی۔

اب لیبر پارٹی جمعرات کو بلددیاتی انتخابات کے نتائج کو ’ٹوری کی ناکامی کے 13 سال‘ پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

رائے شماری کے جائزے بتاتے ہیں کہ ووٹروں کو دہائیوں میں سب سے زیادہ مہنگائی اور ریاست کے زیر انتظام نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کو گھیرے میں لینے والے بحران پر گہری تشویش ہے کیوں کہ ڈاکٹر اور نرسیں بہتر تنخواہ کے لیے ہڑتال کر رہے ہیں۔

 لیبر لیڈر کیئر سٹارمر نے اخبار ڈیلی مرر میں لکھا کہ ’عوامی خدمات میں ناکامی، بڑھتے ہوئے جرائم اور ہسپتال میں علاج کے لیے انتظار کرنے والوں کی فہرستیں ایک چارج شیٹ ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کے ووٹ کی اہمیت ہے۔ اگر آپ مانتے ہیں کہ اگر یہ برطانیہ کو بہتر بنانے کا وقت ہے تو تصویر والی اپنی شناختی دستاویز تھامیں، پولنگ سٹیشن پر جائیں تو آج لیبر پارٹی کو ووٹ دیں۔‘

دوسری جانب سونک نے ان انتخابات کے لیے اپنی حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی تبدیلی کا دفاع کیا ہے جس میں ووٹروں کو پہلی بار تصویری شناخت دکھانے کی ضرورت تھی۔

اس اقدام کو لیبر اور دیگر جماعتوں نے ووٹر کو دبانے کی کوشش کہہ مسترد کیا۔

دھچکا

لیبر پارٹی شمالی برطانیہ میں اپنے سابقہ مضبوط مراکز نام نہاد ’سرخ دیوار‘ میں دوبارہ قدم جمانے کی طرف پیش رفت کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنہ 2019 میں بورس جانسن کے ’بریگزٹ معاہدے پر عمل درآمد کروانے‘ کے وعدے پر ٹوری پارٹی نے ان علاقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

دارالحکومت لندن کے شہری اس بار ووٹ نہیں دے رہے لیکن اعتدال پسند لبرل ڈیموکریٹس شہر کے قریب کنزورویٹیو علاقوں کو ہدف بنا رہے ہیں جن میں وہ پارلیمانی حلقے بھی شامل ہی جہاں سے سیاست دان سونک کی کابینہ میں نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان حلقوں کو ’نیلی دیوار‘کہا جاتا ہے۔ 

نائب لبرل ڈیموکریٹ رہنما ڈیزی کوپر نے کہا کہ سینیئر کنزورویٹیو ارکان پارلیمنٹ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اب لبرل ڈیموکریٹس بڑی سیاسی ہلچل مچانے والے ہیں۔

عدم اطمینان کا شکار

پولنگ کے ماہر جان کرٹس نے کہا کہ شناختی دستاویز کی تبدیلی ممکنہ طور پر ’ایک سیاسی جماعت کے فائدے‘ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کیوں کہ نوجوان لوگوں میں ان دنوں لیبر پارٹی کو ووٹ دینے کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن ان کے پاس نئی شناختی دستاویز ہونے کا امکان کم ہے۔

لندن میں قائم مارکیٹ ریسرچ کنسلٹینسی ’سوانتا‘ نے جمعرات کو کہا کہ ایک چوتھائی کنزورویٹیو کونسلر جماعت کی قیادت مطمئن نہیں جب ایک تہائی نے ملک کی سمت کے حوالے سے انہی خیالات کا اظہار کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ