زلزلے کے بعد شہزادہ چارلس کا دورہ کشمیر اور تحفوں کی یادیں

2005 کے زلزلے کے بعد اس وقت کے برطانوی شہزادے چارلس اور ان کی اہلیہ کمیلا پارکر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا جو وہاں کی کئی خواتین کو آج بھی یاد ہے۔

برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم کی تاج پوشی کے موقع پر انہیں دنیا بھر سے مبارکباد، دعاؤں اورنیک خواہشات کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 2005 کے اندوہناک زلزلے سے متاثر ہونے والی خواتین بھی برطانیہ کے نئے بادشاہ کو دعائیں دینے والوں میں شامل ہیں۔

یہ خواتین برطانوی بادشاہ کو دعائیں اس لیے دے رہی ہیں کہ آج بھی ان کے گھروں میں اس وقت کے شہزادہ چارلس کی عطیہ کی ہوئی گائیں کھڑی ہیں اور جن کا دودھ ان کے خاندان استعمال کر رہے ہیں۔

یہ کہانی 2005 کی ہے جب تباہ کن زلزلے نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے ایک بڑے حصے کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق اس زلزلے میں تقریباً 85 ہزار اموات ہوئیں جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔

مرنے اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ زلزلے سے بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد 35 لاکھ تھی، جبکہ تقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب مویشی بھی ہلاک ہوئے تھے۔

مظفرآباد شہر کا نواحی قصبہ پٹہکہ اور اس سے ملحقہ پہاڑی علاقے زلزلہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ہونے والے علاقوں میں شامل رہے جہاں صرف ایک سکول میں 130 کے قریب بچوں اوراساتذہ کی اموات ہوئی۔

برٹش ریڈ کراس سوسائٹی کے صدر کے طور اس وقت کے برطانوی شہزادہ چارلس سوم ان علاقوں میں امدادی سرگرمیوں اور بحالی و تعمیر نو کے عمل میں براہ راست اور بالواسطہ شامل رہے۔

زلزلے کے 13 ماہ بعد شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کمیلا پارکر بحالی اور تعمیر نو کے ان منصوبوں کا جائزہ لینے پٹہکہ پہنچے جو اس خوبصورت وادی میں برٹش ریڈ کراس سوسائٹی نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ذریعے مکمل کیے تھے۔

ان منصوبوں میں صحت، تعلیم، روزگار، خواتین اور بچوں کی بہتری  کے علاوہ انفرا سٹرکچر کی بحالی کے کئی منصوبے شامل تھے۔

ان منصوبوں کے اثرات آج زلزلے کے 18 سال بعد بھی پٹہکہ کی وادی میں نمایاں نظرآ رہے ہیں۔

شہزادہ چارلس یکم نومبر 2006 کو پٹہکہ کے قصبے میں پہنچے جہاں اگرچہ ان کی سکیورٹی کے پیش نظر انتہائی سخت اقدامات کے باوجود ان کے استقبال اور ان سے ملنے کی خواہش لیے سینکڑوں لوگوں اس چھوٹے سے قصبے میں موجود تھے۔ یہ لوگ بازارہ میں اور سڑک کی دونوں اطراف کھڑے ہو کر اور تالیاں بجا کر ان کا استقبال کر رہے تھے۔

اس دورے کے دوران شہزادہ چارلس کے مترجم کے طور پر ان کے ساتھ رہنے والے پروفیسر نعیم عباسی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ: ’انہوں نے پٹہکہ بازار میں پیدل چلنا شروع کیا۔ سڑک کی دونوں جانب لوگ موجود تھے۔ وہ تالیاں بجا رہے تھے اور ان کا استقبال کر رہے تھے۔ اسی دوران وہ راستے میں رکتے اور لوگوں سے بات چیت کرتے، ان سے سوالات کیے۔ وہ جو جو سوالات کر رہے تھے میں ان کا ترجمہ اردو اور مقامی زبان میں کرتا اور پھر لوگوں کے جوابات کا ترجمہ انگریزی میں کرتا۔

’وہ یہی سوال کر رہے تھے زلزلے کے بعد ان کا کتنا نقصان ہوا؟ وہ کیسے اب زندگی گزار رہے ہیں؟ اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے انہیں کس قدر مدد مل رہی ہے؟ انہوں نے خاص طور پر بچوں اور خواتین (کے مسائل) کے حوالے سے اپنی تشویش  ظاہر کی اور اس حوالے سے وہ کافی فکرمند دکھائی دیے۔‘

پٹہکہ قصبے کے اس وقت کا واحد سرکاری ہسپتال زلزلے سے تباہ ہو گیا تھا اور وہاں اس وقت آئی سی آر سی نے ایک عارضی ہسپتال قائم کیا اور پھر زلزلے سے تباہ ہسپتال کی عمارت تعمیر کی۔ اس وقت سے اس ہسپتال کے زچہ و بچہ سینٹر میں کام کرنے والی پروین اختر کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب شہزادہ چارلس اور کمیلا پارکر ان کے کمرے میں آئے۔

وہ بتاتی ہیں: ’جب شہزادہ چارلس صاحب ہمارے پاس آئے تو میں یہاں اپنی اسی سیٹ پر موجود تھی۔ انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے ہم سے بات کی۔ ہم نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے پوچھا کہ خواتین کے لیے آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں؟ خاص طور پر جو بچے پیدا ہو رہے ہیں ان کے لیے کوئی خاص مسئلہ تو نہیں پیش آ رہے؟‘

پروین اختر کے بقول: ’ہم نے انہیں بتایا کہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیش آ رہے ہیں۔ بچے کمزور پیدا ہو رہے ہیں اور ماؤں کو سنبھالنے میں مسئلہ ہو رہا ہے۔‘

پروین کا کہنا تھا کہ اس پر شہزادہ چارلس نے اس موقع پر اس علاقے کے لیے ہزاروں گائیں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ ’انہوں نے یہاں بچوں کے لیے دودھ وغیرہ کا بھی انتظام کیا۔ اور بہت ساری چیزوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ان کو فراہم کریں گے۔‘

اس دورے کے دوران شہزادہ چارلس کے استقبال کے لیے آنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان خواتین کی بھی تھی جنہیں آئی سی آر سی نے برٹش ریڈ کراس سوسائٹی کے تعاون سے گائیں فراہم کی تھیں تاکہ وہ ان کا دودھ استعمال کریں۔

پٹہکہ کے قریبی علاقے نوسیری کی رہائشی تحسین کاظمی بھی ان خواتین میں شامل ہیں جنہیں اس منصوبے کے تحت گائے ملی۔ شہزادہ چارلس کا استقبال کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھیں۔

تحسین کاظمی کہتی ہیں کہ ان گایوں کی نسلیں آج بھی موجود ہیں اور لوگ ان کا دودھ استعمال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان  کے بقول: ’لوگ ان کو بہت دعائیں دے رہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین بہت دعائیں دے رہی ہیں۔ جن کے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔ گھر نہیں تھا کوئی زمین نہیں تھی۔ بیروزگار اور بھوکے پڑے ہوئے تھے۔

’آج  وہ اتنے بڑے ملک کے باد شاہ بن گئے ہیں تو وہ خواتین اور وہ لوگ ان کو بہت دعائیں دے رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگوں کا روزگار آج بھی چل رہا ہے۔‘

تحسین کاظمی کہتی ہیں: ’ہم ان کے ساتھ ہوئی وہ ملاقات کبھی نہیں بھول سکتے۔ انہوں نے کہا تھا ہم دوبارہ ملیں گے مگر کیا پتا ہم مل سکیں یا نہیں۔ مگر ہماری دعائیں ہمشہ ان کے ساتھ ہیں۔‘

شہزادہ چارلس کے پٹہکہ میں مترجم رہنے والے پروفیسر نعیم عباسی کے مطابق شہزادہ چارلس اور کمیلا پارکر دونوں انتہائی رحم دل انسان ہیں۔ ’وہ مجھے خاصے سادہ انسان دکھائی دیے۔ اس بات کے باوجود کہ ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے ہے، وہ بہت عاجز انسان دکھائی دیے۔ وہ عام لوگوں سے بالکل گھل مل گئے اور ان سے ان کی مشکلات کے حوالے سے سوال کرتے رہے۔‘

تحسین کاظمی بتاتی ہیں کہ شہزادہ چارلس نے اس دورے کے دوران مقامی خواتین کے ساتھ کافی ہنسی مذاق کیا اور خواتین نے ان کی اہلیہ کمیلا پارکر کے ساتھ ان کی جوڑی کی بہت تعریف کی۔ تاہم کئی خواتین نے شہزادہ کو بتایا کہ آپ کہ موجودہ اہلیہ بھی بہت خوبصورت ہیں مگر ہمیں شہزادی ڈیانا زیادہ پسند تھیں۔

پٹہکہ کے اس دورے کے دوران شہزادہ چارلس کی وہ تصویر بہت مشہور ہوئی جس میں وہ اپنی اہلیہ کمیلا کے ساتھ ایک گدھے اور گھوڑے کو پیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس دورے کے دوران وہاں موجود محکمہ اطلاعات کے آفیسر طارق جمیل درانی کے ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکار انہیں روکنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ پھر دریا کے کنارے اور گدھے اور گھوڑے کے پاس چلے جاتے۔

طارق جمیل درانی کو یہ تو یاد نہیں کہ وہ اس کے بارے میں کیا باتیں کر رہے تھے مگر ان تصاویر اور ویڈیوکو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ان جانوروں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور محکمہ لائیو سٹاک کے مقامی اہلکاروں سے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین