’قتل کے بدلے خاتون‘ دینے کا رواج جرگوں نے ختم کر دیا: گورنر

گورنر بلوچستان نے کہا کہ ’غیرت نام پرقتل کے خلاف فوری قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے، ملک بھر میں جہاں بھی عورت کا قتل ہوا ہے وہ ناحق ہوا۔‘

29 مئی 2014 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں(اے ایف پی)

بلوچستان کے گورنر ملک عبدالولی کاکڑ کا کہنا ہے کہ قبائلی جرگوں نے قتل کے بدلے خواتین کو بطور تاوان دینے کا عمل ختم کر دیا ہے۔

گورنر ملک عبدالولی نے بات منگل کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے عنوان پر قومی ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کے موقع پر کہی تھی۔

اپنے خطاب میں گورنر بلوچستان نے کہا تھا کہ ’غیرت کے نام پر قتل کے خلاف فوری قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے، ملک بھر میں جہاں بھی عورت کا قتل ہوا ہے وہ ناحق ہوا، اسلام سے قبل عورت کو زندہ دفنایا جاتا تھا، اسلام کی اصل تعلیمات کو عام کر کے اس مسئلے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔‘

بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو روکنے کے لیے کوئٹہ میں ایک قومی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا تھا۔

ڈائیلاگ کے دوران خواتین مقررین نے اس مسئلے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت، قتل یا تشدد کا نشانہ بنتی ہے، خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران خواتین پر تشدد کے 542 واقعات میں 354 افراد قتل ہوئے، جس میں 303 خواتین شامل ہیں۔ قتل ہونے والوں میں 149 خواتین اور 51 مرد ’غیرت کے نام‘ پر قتل ہوئے۔

مقررین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس قومی ڈائیلاگ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرنا ہے جس کا مقصد زیادہ معلوماتی اور مددگار ماحول اور سماجی دباؤ پیدا کرنا ہے۔

مذہبی رہنما مفتی کلیم اللہ حیدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پورے ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو روکنا ضروری ہے، علمائے کرام ’غیرت کے نام پر خواتین کے قتل‘ کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اسلام ان رسومات کی اجازت نہیں دیتا، اس کا نام ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے بجائے ’بے غیرتی کے نام پر قتل‘ رکھنا چاہیے۔‘

’خواتین کو جائیداد سے محروم کرنے کے لیے اس طرح کی غیر شرعی رسومات نبھائی جاتی ہیں، اس رسم میں صرف خواتین کو ہی کیوں مارا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذہبی رہنما مفتی کلیم اللہ حیدری کا کہنا تھا کہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی رسم پورے پاکستان میں مختلف ناموں سے موجود ہے۔ ’سندھ کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں اس کو ’کار و کاری‘، خیبرپختونخوا میں ’طور طورا‘، بلوچستان میں ’سیاہ کاری‘ اور پنجاب میں ’کالا کالی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2004 سے 2016 تک پاکستان بھر میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے تقریباً 15 ہزار 222 واقعات پیش آئے۔

عورت فاؤنڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی نے کہا کہ ’اس رپورٹ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرنا ہے اور اعداد و شمار کو مستقبل میں بننے والی پالیسیوں اور قانونی اصلاحات کے لیے مددگار بنانا ہے۔‘

ایواجی الائنس، پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کی کارکن اور بلوچستان ویمن بزنس ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن ثنا درانی نے کہا کہ ’تشدد ایک بڑا صنفی، غیر مساوی امتیاز اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہوا ذریعہ بن رہا ہے۔‘

اس موقع پر راجی بلوچ ویمن فورم کی چیئر پرسن پروین ناز نے کہا کہ ’اب وقت بدل رہا ہے، بلوچ معاشرے میں اس مسئلے پر بات ہو رہی ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے، تاہم اس حوالے سے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین