’انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے بعد آمدن نہ ہونے پر میں لاہور سے واپس شیخوپورہ اپنے گاؤں آ گیا کیونکہ اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ صرف میں نہیں میرے ساتھ کام کرنے والے بیشتر رائیڈرز گھروں میں بیٹھے انٹرنیٹ سروس بحال ہونے کے منتظر ہیں۔‘
یہ کہنا تھا کہ فوڈ ڈیلیوری سروس فوڈ پانڈا کے ایک رائیڈر وقاص علی کا، جنہوں نے بتایا کہ وہ سروس کی بندش سے قبل ایک ہفتے میں تقریباً 15 ہزار روپے تک کما لیتے تھے۔
’میں لاہور میں کرائے کے مکان میں اکیلا رہتا ہوں جبکہ بیوی بچے گاؤں میں رہائش پذیر ہیں۔ اکیلے ہونے کی وجہ سے میں 15 سے 16 گھنٹے کام کرتا ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ کمائی کر سکوں۔‘
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد حکومت نے پی ٹی آئی کے پرتشدد احتجاج پر انٹرنیٹ سروس بند کر دی تھی جس کے بعد ملک بھر میں انٹرنیٹ سے منسلک تمام کاروبار شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا ’ملکی صورت حال کے پیش نظر وزارت داخلہ کی ہدایت پر موبائل انٹرنیٹ سروس بند کی گئی ہے، جیسے ہی انہیں سروس بحال کرنے کا حکم ملے گا سروس بحال کر دی جائے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق ’پی ٹی آئی کا سارا کام سوشل میڈیا پر چلتا ہے اس لیے موبائل انٹرنیٹ سروس بند کی گئی ہے۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے نیٹ سروس بحال کر دی جائے گی۔‘
فوڈ پانڈا کے رائیڈر وقاص علی نے مزید بتایا کہ وہ اپنی اس آمدنی سے خوش تھے کیونکہ گھر کا خرچہ چل رہا تھا،
انہوں نے کہا کہ کھانے کے آرڈر لوکیشن آن نہ ہونے پر تاخیر سے ملنے پر شہریوں کو بھی مشکلات ہیں۔
انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے باوجود بعض رائیڈر کیسے کام کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب میں تیمور احمد نامی رائیڈر نے کہا کہ وہ لاہور کے رہائشی ہیں بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر فارغ نہیں بیٹھنے دیتی اس لیے وہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے باوجود کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا انٹرنیٹ دسیتاب نہ ہونے سے انہیں ڈیلوری پہنچانے میں زیادہ وقت اور پیٹرول خرچ کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موبائل نیٹ سروس بند ہونے کے بعد کپمنی رائیڈرز کی قلت کے باعث دسیتاب رائیڈرز کو اضافی پیسے دے رہی ہے۔ ’فی رائیڈ 70 سے 150 روپے تک اضافی ملنے سے خرچ نکل رہا ہے۔‘
فوڈ ڈیلوری سروس کے علاوہ آن لائن ٹیکسی، رکشہ اور موٹر سائیکل سروس سے منسلک رائیڈر بھی پریشان ہیں۔
لاہور میں اوبر اور کریم کمپنی کی موبائل اپلیکیشن پر گاڑی چلانے والے جمیل خان کے بقول وہ گاڑی چلا کر مہنگائی میں گھر کا خرچ چلا رہے تھے لیکن انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے وہ سواریاں تلاش نہیں کر پا رہے۔
’شہر میں جگہ جگہ احتجاج اور راستے بلاک ہونے سے گھوم پھر کر روزی کمانا ممکن نہیں، اوپر سے گاڑی کی توڑ پھوڑ کا خوف الگ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’منگل کی شام سے گاڑی گھر کھڑی کر رکھی ہے، روزانہ تین سے چار ہزار کما کر گھر کا راشن اور تین بچوں کی فیسیں ادا کرتا ہوں۔ سوچ رہا ہوں یہ سلسلہ جاری رہا تو کیسے چلے گا؟‘
لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن کے نوید تبسم بائیکیا کمپنی سے منسلک ہیں۔ وہ بھی موٹر سائیکل رائیڈز کے ذریعے گزر بسر کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ موبائل انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے وہ کام نہیں کر پا رہے۔
بی اے کے طالب علم نوید کے مطابق وہ اپنے تعلیمی اور دیگر اخراجات آن لائن بائیک سروس کے ذریعے کرتے ہیں۔
’جب سے انٹرنیٹ سروس بند ہوئی ہے شام کے وقت آس پاس سواریوں سے پوچھ کر بیٹھا رہا ہوں جو بہت کم ملتی ہیں۔ پیٹرول مہنگا ہونے کے باعث سواری ڈھونڈنے کے لیے زیادہ گھوم بھی نہیں سکتے۔‘
فوڈ ڈیلیوری اور رائیڈ سروسز کے علاوہ مختلف آن لائن کاروبار کرنے والے لاکھوں افراد پریشانی سے دوچار ہیں۔