’تحریک انصاف حقیقی‘ بنانے والے راؤ یاسر کون ہیں؟

ملتان کے صحافی حافظ سرفراز کے مطابق راؤ محمد یاسر پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کے خاندان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

راؤ یاسر نے رواں ہفتے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو خیر باد کہا تھا (تصویر: راؤ یاسر فیس بک پیج)

جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یوتھ ونگ کے ضلعی صدر راؤ محمد یاسر نے جمعرات کو پارٹی چھوڑ کر ’پاکستان تحریک انصاف حقیقی‘ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔

ملتان میں نئی جماعت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے نوجوانوں کو گمراہ کیا اور ان کے خواب توڑ ڈالے۔ ملکی سلامتی کے اداروں کی تضحیک کی جو ناقابل قبول ہے۔ میرا پارٹی بنانے کا مقصد پی ٹی آئی کے نوجوانوں کو منزل تک پہنچانا ہے۔‘

نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جن کے دوران فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ نجی اور قومی املاک کو بھی جلایا گیا۔

راؤ یاسر نے رواں ہفتے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پارٹی کو خیر باد کہا تھا۔

ملک بھر سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات اور ان کے مستقبل سے متعلق سیاسی صورت حال میں نئی پارٹی کے اس اعلان کو مقامی میڈیا پر کافی اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔

اگرچی پی ٹی آئی حقیقی کے نام سے پارٹی کا اعلان کرنے والے راؤ یاسر سیاسی طور پر اس ذمہ داری کے لحاظ سے فی الحال زیادہ مقبول نہیں ہیں، نہ ہی ان کا سیاست میں زیادہ تجربہ ہے، تاہم اس نئے سفر کے بعد کی جدوجہد ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

راؤ یاسر کون ہیں؟

آج (25 مئی کو) ملتان میں تشکیل دی گئی پاکستان تحریک انصاف حقیقی کے چیئرمین راؤ یاسر، پاکستان تحریک انصاف ملتان کے ضلعی صدر خالد محمود ورائچ کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’اس صورت حال کے صرف اور صرف عمران خان ذمہ دار ہیں۔ حساس اداروں نے خان صاحب کو بار بار بتایا کہ آپ کے نام پر بشریٰ بی بی اور عثمان بزدار کرپشن کر رہے ہیں لیکن خان صاحب نے ان رپورٹس پر کان نہیں دھرا۔ عمران خان نے نوجوانوں کو غلط راہ پر ڈالا۔ ہم نے اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف حقیقی بنانے کا فیصلہ کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے ہم نوجوانوں کو صحیح راہ دکھانے کا وعدہ کر کے اداروں کے خلاف استعمال کیا۔‘

نومئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے راؤ یاسر نے کہا کہ ’جو لوگ بے گناہ گرفتار ہوئے ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہم گرفتار لوگوں کو بازیاب کروائیں گے اور انہیں پر امن سیاست کا حصہ بنائیں گے۔‘

راؤ یاسر کے بقول: ’نئی پارٹی بنانے کا مقصد پی ٹی آئی کارکنوں کو سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرناہے تاکہ وہ سیاست سے کنارہ کشی نہ کریں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پارٹی کا اعلان کردیا، اب الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروا کے انتخابی نشان بھی حاصل کریں گے اور آئندہ انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔‘

راؤ یاسر کی لنکڈاِن پروفائل کے مطابق انہوں نے نیو جرسی کے بلوم فیلڈ کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول ’ماضی میں بھی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے گروپ بنائے گئے لیکن جماعتیں وہی قائم ہیں جو لیڈرز کے ساتھ ہیں۔ پیپلز پارٹی میں سے کئی گروپ نکلے، ن لیگ کو توڑا گیا لیکن آج بھی دونوں جماعتیں قائم و دائم ہیں۔‘

سلمان نے انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح تحریک انصاف سے گروپ نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے یہ بھی ماضی کی طرح کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ پی ٹی آئی وہی ہوگی جس کا سربراہ عمران خان ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سیاسی جماعتیں کمزور کرنے سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ لہذا سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ لیڈر شپ پارٹیوں کے اندر جمہوریت کو مضبوط کریں تاکہ پارٹیاں کمزور نہ ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی چھوڑنے والے کسی بڑی جماعت میں جائیں تو سیاست بچ سکتی ہے لیکن نئی جماعت سے یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا کہ لیڈر شپ کے بغیر پارٹی کے لوگ کسی غیر معروف بندے کو لیڈر مان کر ساتھ چلیں گے۔ ملتان میں راؤ یاسر نامی پی ٹی آئی کے کارکن نے جو حقیقی پی ٹی آئی بنانے کا اعلان کیا ہے اسے تو عام طور پر شاید لوگ جانتے بھی نہیں ساتھ کیا چلیں گے۔‘

ملتان کے صحافی حافظ سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’راؤ محمد یاسر پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور انہوں نے سیاست کا آغاز پاکستان تحریک انصاف سے کیا اور تحریک انصاف ملتان کے ضلعی صدر خالد محمود وڑائچ کے دست راست بنے رہے، جنہوں نے شاہ محمود قریشی سے درخواست کر کے انہیں یوتھ ونگ کا ضلعی صدر بھی بنایا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرفراز نے بتایا کہ ’راؤ یاسر کے خاندان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔اگر انتخابی سیاست کی بات کریں تو وہ کبھی ایم پی اے کا الیکشن بھی نہیں لڑے، انہیں صرف پی ٹی آئی کی ریلیوں اور جلسے، جلوسوں میں ہی دیکھا گیا ہے۔‘

ان کے خیال میں: ’پی ٹی آئی حقیقی کی بنیاد رکھنے والے راؤ یاسر نوجوان ہیں اور لوگوں سے تعلقات بنانے کے شوقین ہیں۔ وہ مالی طور پر کافی بہتر ہیں اس لیے ملتان کی حد تک شاید وہ پارٹی کو متحرک کر لیں لیکن ملکی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

پاکستان میں نئی پارٹیوں کی روایت برقرار

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کے بعد سے سیاسی ایوانوں میں دوبارہ سے جوڑ توڑ شروع ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی نئی سیاسی پارٹیوں کی بھی گونج سنائی دے رہی ہے۔

ٹی وی اینکر ثمینہ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان میں بڑی پارٹیوں کو توڑنے اور ان کے نام سے نئی جماعتیں بنانے کی روایت نئی نہیں ہے۔

’پہلے پیپلز پارٹی میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی، پھر ن لیگ میں سے ق لیگ بنائی گئی، ایم کیو ایم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، لیکن کوئی بھی ایسی جماعت اس طرح کامیاب نہیں ہوسکی جس طرح پارٹی قیادت کے ہوتے ہوئے متحد جماعتیں چلتی ہیں۔‘

ثمینہ کے بقول: ’تحریک انصاف کو بھی پہلے مقبول جماعت بنایا گیا، الیکٹ ایبل شامل کروائے گئے، وہ اقتدار میں بھی آگئی۔ اب جتنے لوگ عمران خان کے نظریے کی وجہ سے تحریک انصاف میں آئے، وہ چھوڑ بھی جائیں، کسی نئی جماعت میں شامل ہو بھی جائیں، تب بھی ماضی کی طرح نئی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی، البتہ تحریک انصاف کو وقتی نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔‘

ان کے خیال میں: ’اس بار نئی جماعت کا مضبوط ہونا اس لیے بھی زیادہ مشکل ہے کہ گذشتہ ایک سال میں جس طرح وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے خلاف پی ٹی آئی نے مہم چلائی وہ کارکنوں کے ذہن میں بیٹھ گئی کہ پارٹی چھوڑنے والوں کا ساتھ نہیں دینا۔ جس طرح تحریک انصاف کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ کامیاب ہوتی ہے یا نہیں البتہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ایک حقیقت ہے اور ان کی حمایت کا اندازہ الیکشن میں ہی لگایا جاسکے گا۔‘

ثمینہ پاشا کا مزید کہنا تھا کہ ’مصنوعی طریقے سے بننے والی سیاسی جماعتوں کی جڑیں مضبوط ہونا ممکن نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست