کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر کوئی دباؤ ہے؟

پاکستان تحریک انصاف 2013 سے خیبرپختونخوا میں حکومت کر رہی ہے، وہاں سے حالیہ دنوں میں دو سابق صوبائی وزرا پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان 21 مارچ 2023 کو لاہور میں دو مقدمات کے سلسلے میں حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت میں پیشی کے موقعے پر (اے ایف پی)

سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان دنوں قانونی کارروائیوں کے علاوہ سیاسی مشکلات سے بھی دوچار ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے نیوز کانفرنسز کے ذریعے پی ٹی آئی رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات سامنے آرہے ہیں۔

نو مئی 2023 کو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے اور احتجاج کیا گیا تھا، جس کے دوران پاکستانی فوج کی تنصیبات اور یادگاروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا، جس کے بعد اس وقت پی ٹی آئی کے کئی رہنما اور ہزاروں کارکن گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان حالات میں اس جماعت کو نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی چیلنج کا بھی سامنا ہے کیونکہ پارٹی چھوڑنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس صورت حال میں یہ بیان دیا ہے کہ ’جو پارٹی چھوڑ رہے ہیں، انہیں کچھ نہ کہا جائے کیونکہ ان پر بہت دباؤ ہے۔‘

اس کے برعکس گذشتہ سال وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کے دنوں میں عمران خان نے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ’لوٹا‘ قرار دے کر اپنے کارکنوں سے ان کے خلاف  احتجاج کرنے کا کہا تھا۔

اب ایک بار پھر نو مئی کے بعد تحریک انصاف کے اسلام آباد، کراچی، پشاور اور جنوبی پنجاب سے سابق اراکین اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

پارٹی چھوڑنے والے افراد اپنے اس فیصلے کی مختلف وجوہات بیان کر رہے ہیں، کوئی فوجی تنصیبات پر حملوں کے باعث فوج سے اظہار یکجہتی کر رہا ہے تو کوئی ملکی حالات خراب ہونے پر ’ضمیر کی آواز‘ کو علیحدگی کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے ’پارٹی چھوڑنے والے کئی افراد پارٹی ٹکٹ نہ ملنے اور بعض عہدوں سے محرومی کے باعث کچھ حکومتی جماعتوں میں جا کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پارٹی میں ٹکٹیں لینے والوں کی لائنیں لگی ہیں۔‘

کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر دباؤ ہے؟

پاکستان تحریک انصاف جس صوبے میں 2013 سے حکومت کر رہی ہے، وہاں سے حالیہ دنوں میں دو سابق صوبائی وزرا پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے سابق صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ وزیر اور اجمل وزیر نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا باقاعدہ اعلان پریس کانفرنس میں کیا۔

ہشام انعام اللہ وزیر نے کہا: ’ہم پاکستان سے محبت اور فوج کے احترام کے نظریے پر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ پارٹی کے لیے اور وزارت ملنے کے بعد صوبے کے عوام کے لیے جو کر سکتا تھا کیا۔ پارٹی پر برا وقت آنے کے باوجود ساتھ کھڑے رہے، لیکن جب فوج کے خلاف ہماری قیادت نے مہم شروع کی تو تکلیف ہوئی، مگر جب نو مئی کو فوجی تنصیبات کا نشانہ بنا کر ملک دشمن کا ثبوت دیا گیا تو برداشت نہیں ہوا اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہوں۔‘

اسی طرح اجمل وزیر نے بھی پارٹی چھوڑنے کی وجہ نو مئی کے واقعات پر دل آزاری ہی بتائی ہے۔

ان دونوں سابق وزرا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے اور وہ نو مئی کے واقعات کے بعد ’اپنے ضمیر کی آواز‘ پر پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

ادھر کراچی سے تحریک انصاف کی اقلیتی نشست پر رکن بننے والے سابق ایم این اے جے پرکاش نے بھی پارٹی سے علیحدگی کی وجہ آرمی تنصیبات پر حملوں کو ہی قرار دیا ہے۔

انہوں نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ ان پر بھی کسی قسم کا دباؤ نہیں بلکہ وہ اپنی مرضی سے پارٹی سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔

ملتان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی ظہیر خان علیزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دو دن پہلے انہوں نے جنوبی پنجاب کے دیگر پی ٹی آئی کے پانچ سابق اراکین اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس کر کے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ابھی اور اراکین بھی تحریک انصاف سے علیحدگی کا سوچ رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم نے نو مئی اور اس کے بعد ہونے والے پر تشدد واقعات کے باعث پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم پڑھے لگے نوجوانوں کی ترجمانی کے نام پر اس پارٹی میں آئے تھے۔ جلاو گھیراؤ اور وہ بھی اپنے ہی دفاعی اداروں پر، یہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمیں شدید تکلیف ہوئی جب اپنے ہی ملک کی تنصیبات کو آگ لگائی گئی اور ہمارے لیڈر نے اس کی مذت کرنا بھی گوارا نہیں کیا، لہذا اندازہ ہوا یہ قیادت محب وطن نہیں۔‘

ظہیر علیزئی کے بقول: ’جو لوگ تحریک انصاف چھوڑ رہے ہیں ان کا تو معلوم نہیں مگر ان پر کوئی دباؤ نہیں۔ اگر دباؤ کی پروا پوتی تو پنجاب میں حمزہ شہباز کی حمایت کے وقت ان پر بہت دباؤ تھا، تب پارٹی نہیں چھوڑی تو اب کیوں چھوڑتے؟‘

تحریک انصاف چھوڑنے والوں سے پی ٹی آئی پر اثر پڑے گا؟

جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال پی ٹی آئی کی سینیٹر ڈاکٹر زرقا تیمور کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا: ’جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں یا پہلے چھوڑ چکے ہیں، ان کی کوئی سیاسی شناخت نہیں تھی۔ ہم تو کافی لوگوں کو ٹی وی پر پریس کانفرنس کرنے پر دیکھتے ہیں کہ یہ بھی پی ٹی آئی میں تھے۔‘

زرقا کے مطابق: ’ہمارے لیڈرعمران خان کئی بار اجلاسوں میں کہہ چکے ہیں کہ پارٹی وفا داریاں تبدیل کرنے والوں کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہوتا۔ جو لوگ پہلے چھوڑ کر گئے انہیں پنجاب کے ضمنی انتخاب میں اندازہ ہوگیا تھا۔ جو اب چھوڑ رہے ہیں انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ آئندہ الیکشن میں ہو جائے گا۔ اس لیے ہمیں کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس سے پارٹی ٹکٹ تقسیم کرتے وقت آسانی رہتی ہے۔‘

پی ٹی آئی سینیٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’ہم نے متحرک انداز میں 2013 سے ملک بھر میں امیدوار کھڑے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت سے ابھی تک تمام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا سب سے مشکل امتحان پی ٹی آئی کو درپیش رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کے جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور سٹریٹ پاور سے ہماری مقبولیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔‘

زرقا کے بقول: ’پی ٹی آئی اپنے نظریاتی اور نئے امیدواروں کے ذریعے پنجاب کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب میں اپنی مقبولیت کو آزما چکی ہے، لہذا اب اسی ماڈل پر کام کریں گے۔ حالیہ انتخابات جو 14مئی کو ہونا تھے، ان میں بھی ہم نے نئے امیدواروں کو ٹکٹ دیے۔ ہمیں یہ بخوبی یقین ہوچکا ہے کہ الیکٹ ایبلز جو اشاروں پر پارٹیاں بدلتے ہیں اب ان کے پارٹی میں ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی متعدد بار بیان دے چکے ہیں کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تحریک انصاف اب بھی ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین جماعت ہے۔ یہ بیانات وہ ایسے مشکل وقت میں دے رہے ہیں، جب پارٹی کے اہم رہنما گرفتار ہیں۔

وفاداریاں بدلنے کی پرانی روایت ختم کیوں نہ ہو سکی؟

سینیئر صحافی سلمان غنی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان کی سیاست میں پارٹیاں تبدیل کرنے کا سلسلہ نیا نہیں۔ یہاں جتنے بھی انتخابات ہوئے سیاسی پنچھیوں کے ایک بنیرے سے دوسرے بنیرے پر جا بیٹھنے کا موسم دیکھنے کا ملتا ہے۔ 1988 میں جب پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں اور انہوں نے حکومت بنائی اور پھر جب انہیں وزارت عظمٰی سے ہٹایا گیا تو مسلم لیگ میں لوگ شامل ہوتے دکھائی دیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’جب نواز شریف کو گھر بھیجا گیا تو لوگ مسلم لیگ چھوڑتے دکھائی دیے۔ یہاں تک کہ اسمبلیوں میں اسٹیبلشمنٹ جب چاہتی تھی صدر مملکت کے ذریعے اسمبلیاں تڑوا کر سیاست دانوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کا کہا جاتا اور مرضی کی حکومت بنوا دی جاتی تھی۔‘

سلمان کے بقول: ’جب پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر میاں نواز شریف کو حراست میں لیا تو ن لیگ کا نام لینا بھی جرم ٹھہرتا تھا۔ لوگ پارٹی چھوڑ چھوڑ کر گئے، پھر ن لیگ میں سے مسلم لیگ ق بنا کر اقتدار کے مستند پر بٹھایا گیا اور اس جماعت میں وہی لوگ تھے جو نواز شریف کے ساتھ ہوتے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب 2011 میں تحریک انصاف کی اچانک شہرت بڑھ گئی تو شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی جیسے لیڈر پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ اسی طرح 2018 میں جس طرح لوگ دوسری پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ ’اگر دیکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتوں میں اکثر وہی لوگ نظر آتے ہیں جن کے آبا و اجداد بھی کسی نہ کسی پارٹی کا حصہ رہے اور اب ان کی اولادیں سیاست میں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پارٹیوں میں جمہوریت نہ ہونا بھی ہے۔ جب پارٹیوں میں جمہوریت نہیں ہو گی تو ہر پارٹی قیادت اختیارات اپنے گھر میں ہی رکھتی ہے تو دوسرے سیاست دان بھی پارٹی کی بجائے اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔‘

ان کے خیال میں: ’دباؤ سے زیادہ لوگ کسی بھی پارٹی کے اقتدار میں آنے یا نہ آنے پر سیاسی وابستگی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ البتہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر دباؤ کا تاثر بھی پایا جاتا ہے، لیکن آنے والے دنوں میں صورت حال مزید واضح ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست