نو مئی انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے؟ چیف جسٹس

پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت ہوئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان (اے ایف پی)

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ دستور پاکستان کے تحت منتخب حکومت کا چھ ماہ اور نگران انتظامیہ کا ساڑھے چار سال تک رہنا ممکن نہیں اس لیے نگران حکومت کے بجائے ساڑھے چار سال کے لیے نئی منتخب حکومت آ سکتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ریمارکس پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر جمعرات کو سماعت کے دوران دیے، جس میں گزشتہ تین روز سے آئین کا آرٹیکل 188 زیر بحث ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ نو مئی کے واقعات انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے اسی بحث کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نو مئی کے واقعہ کے چکر میں آئین کی منشا کو بھلایا جا رہا ہے۔

پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران ایک موقعے پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا: ’90 روز کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کروانے ہی آتی ہے۔ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے؟ نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔

ابتدا میں سماعت کے شروع پونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت تین دن سے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سن رہی ہے اور وکیل کے دلائل مختصر ہونا چاہئے۔

’بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی وقت ضائع ہوا۔‘

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں بتائیے کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے؟‘

وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ قوانین آئینی اختیارات کو کم نہیں کر سکتے۔ 

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’سپریم کورٹ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟ اب تک کے نقاط نوٹ کر چکے ہیں آپ آگے بڑھیں۔

’آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز تو عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے۔‘

وکیل سجیل سواتی نے کہا فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکا ہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا، جس پر جسٹس منیب نے کہا: ’آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز تو عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے؟‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ توہین عدالت کے کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم ازکم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘

جسٹس منیب اختر نے کہا آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کر دیا ہے۔ 

’اگر صوبائی اسمبلی چھ ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگران حکومت رہے گی؟‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت کا ہونا ضروری ہے جس کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اگر صوبائی اسمبلی چھ ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگران حکومت رہے گی؟ کیا ساڑھے چار سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟

وکیل نے جواب دیا کہ ساڑھے چار سال نگران حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کرے گی، آئین کے ایک آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے، انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔

’نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے چار سال کے لیے نئی منتخب حکومت آ سکتی ہے۔ آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگران حکومت ساڑھے چار سال رہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا: ’90 روز کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کروانے ہی آتی ہے۔ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے؟ نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہیں۔

’یہ نہ سمجھیں کہ خیبر پختونخوا کو ہم نے سائیڈ پر کر دیا ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نہیں کہہ سکتا کہ فنڈز نہیں ہیں تو انتخابات نہیں کروا سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد سابق سپیکر نے سپریم کورٹ سے انتخابات کے لیے رجوع کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن سیاسی باتیں کر رہا ہے، جس پر ادارے کے وکیل نے کہا الیکشن کمیشن خود مختار اور آزاد ادارہ ہے، سیاسی بات نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس نے کہا جی بالکل آئین بھی سیاست سے متعلق ہی ہے۔

’کب تک انتخابات میں تاخیر کی جا سکتی ہے؟ انتخابات میں تاخیر سے منفی قوتیں ایکٹیو ہو جائیں گی، منفی قوتیں چالیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

’بلوچستان کے ضمنی انتخابات میں ٹرن آوٹ 60 فیصد تھا جسے دیکھ کر خوشی ہوئی، بلوچستان کے خراب حالات میں بھی عوام باہر نکلے اور ووٹ کاسٹ کیا۔ عوام اپنے نمائندوں کے انتخابات چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن تاخیر کیوں کر رہا ہے اور کب تک کرے گا؟ سپریم کورٹ نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اور کب تک یہ سب برداشت کریں گے؟

’بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی؟‘

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’ہماری تاریخ میں ہم حقوق کی قربانیاں دیتے رہے ہیں،تین بار قربانی دے چکے ہیں اور پھر اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام الناس کو اپنا فیصلہ کرنے کا موقع ملے، ہمیں خوشی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس بات کا احساس ہے آپ نے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔

’آپ نے 22 مارچ کو صدر کو خط لکھا کہ فنڈز اور سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کروائیں گے۔ اب آپ آئینی اور سیاسی نقاط اٹھا رہے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے، کیونکہ آئین بھی ایک سیاسی دستاویز ہے۔ وہ مقام کب آئے گا جب آپ کہیں گے کہ اس سے آگے نہیں جا سکتے؟ بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی؟ آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں؟‘

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا نو مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینا چاہئے۔ کل ارکان اسمبلی کے لیے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹ منظور ہوئی، الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے۔ الیکشن کمیشن نے چار لاکھ 50 ہزار سکیورٹی اہلکار مانگے، ساڑھے چار لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے۔ فوج کی سکیورٹی کی ضرورت کیا ہے؟ فوج صرف سکیورٹی کے لیے علامتی طور پر ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو کیو آر ایف کی پیشکش کی تھی، جو کافی ہے۔ آئین کی منشا ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونا چاہئے۔ بظاہر آٹھ اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی۔ حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا سرکاری اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے، دہشت گردی کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹھ اکتوبر کی تاریخ دی تھی، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ آٹھ اکتوبر تک سکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ یہ موقف 22 مارچ کو تھا الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہوں گے؟

وکیل سجیل سواتی نے کہا نو مئی کے واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا: ’نو مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے جن سے بچنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ نو مئی کا واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ’نو مئی کے واقعہ کے چکر میں آپ آئین کی منشا کو بھلا رہے ہیں۔‘

بعد ازاں کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی گئی، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی اس روز بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں درخواست دائر

دوسری جانب چئیرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خلاف درخواست دائر کی ہے جس میں اس آرٹیکل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو سیاسی جماعت کے کارکنان کی گرفتاریوں سے روکا جائے اور آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل کو بھی کالعدمو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

عمران خان نے وکیل حامد خان کے ذریعے یہ آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔ 

درخواست میں نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز نے پروپیگنڈا کیا کہ عمران خان اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ 

درخواست میں وفاق، نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان