ترکی: صدارتی الیکشن میں رجب طیب اردوغان کا جیت کا اعلان

اردوغان نے کہا کہ میں اپنی قوم کے ہر فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے آئندہ پانچ سالوں کے لیے ایک بار پھر اس ملک پر حکومت کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

ترکی نے اتوار کو ایک تاریخی رن آف الیکشن کے لیے ووٹنگ کی جس کے بعد ووٹنگ کے نتائج آنے پر صدر رجب طیب اردوغان نے جیت کا اعلان کر دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق  صدارتی انتخابات کے رن آف مرحلے میں صدر رجب طیب اردوغان کو ان کے حریف کمال قلیچ داراوغلو پر برتری حاصل ہوگئی ہے۔ تازہ ترین نتائج کے مطابق صدر اردوغان اپنی دو دہائیوں سے جاری مسلسل حکمرانی کو 2028 تک توسیع دیں گے۔

اس سے قبل 14 مئی کو صدارتی انتخابات میں کوئی بھی امیداوار فیصلہ کن برتری یعنی 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکا جس کے بعد آج رن آف الیکشن میں نئے صدر کا فیصلہ ہوا۔

 پولنگ کے نتائج کے مطابق صدر اردوغان ڈالے گئے ووٹوں کا 49.3 فیصد حاصل کر سکے جبکہ ان کے مدمقابل قلیچ داراوغلو 45 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انتخابات ختم ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں اردوغان نے استنبول میں اپنے گھر کے باہر انتخابی مہم کے حامیوں سے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم کے ہر فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے آئندہ پانچ سالوں کے لیے ایک بار پھر اس ملک پر حکومت کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

اردوغان نے کہا: ’آج واحد فاتح ترکی ہے۔‘

سرکاری انادولو ایجنسی کے مطابق اب تک کے نتائج کے مطابق صدر اردوان 52.12 فیصد ووٹ لیکر آگے ہیں جبکہ اپوزیشن امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو 47.88 فیصد ووٹ حاصل کرسکے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اروغان کو صدارتی انتخابات میں برتری پر مبارک باد دی۔

فتح کے اعلان کے بعد سے اردوغان کے نام مبارک بادوں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، طالبان حکومت کے سربراہ ملا محمد حسن آخوند سمیت آذربائیجان، ہنگری، لبیا کے سربراہان نے بھی ترکی کے صدر اردوغان کو مبارک باد دی۔

اس سے قبل اتوار کو انتخاب میں اپنا حق رائے دہی کاسٹ کرنے کے بعد قلیچ داراوغلو نے کہا تھا: ’میں اپنے تمام شہریوں کو اس آمرانہ حکومت سے نجات دلانے اور اس ملک میں حقیقی آزادی اور جمہوریت لانے کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔‘

قلیچ داراوغلو نیشنل الائنس کے جھنڈے تلے ان انتخابات میں ایک بڑے اتحاد کی قیادت کر رہے تھے۔

یہ قومی اتحاد موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کی مخالفت میں چھ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ہے۔

دوسری جانب 69 سالہ اردوغان نے استنبول کے ایک قدامت پسند علاقے میں اپنی اہلیہ ایمن کے ساتھ ووٹ کاسٹ کیا تھا۔

صدر اردوغان نے اس موقع پر کہا: ’میں اپنے شہریوں سے کہتا ہوں کہ وہ باہر نکلیں اور کسی خوش فہمی کے بغیر ووٹ دیں۔‘

ادھر رن آف الیکشن سے قبل ترک شہریوں کی ملی جُلی رائے سامنے آ ئی تھی۔

دارالحکومت انقرہ میں اردوغان کو ووٹ دینے کے بعد 45 سالہ خاتون ووٹر نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم سب نے دیکھا کہ پچھلے 20 سالوں میں کیا ہوا ہے۔ ہم سب شاہد ہیں کہ ہمارا ملک کیسے بدلا ہے۔ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔

’میں نے اپنے ملک کو ہر پہلو سے بہتری کی جانب گامزن رہنے کے لیے اردوغان کو ووٹ دیا۔ ملک میں اقتصادی مشکلات ہیں لیکن وہ حل کیے جانے والے مسائل ہیں۔ جب تک ہم مضبوط ہیں ترکی کسی بھی مسٔلے پر قابو پا سکتا ہے۔‘

اروغان کی مخالف ووٹر 32 سالہ گلکان ڈیمیروز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ووٹ تبدیلی لائے گا اور بصورت دیگر ان کے دوست بیرون ملک چلے جائیں گے جیسا کہ وہ اور ان کے ساتھی بہتر زندگی کے لیے ایسا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

خاتون ووٹر نے کہا: ’یہ ملک بہتری کا مستحق ہے۔ ہمیں ایک طاقتور آمر کی ضرورت نہیں جو اکیلے ملک کو چلائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں ڈیجیٹل مارکیٹ کے ماہر اور اوغلو کے حامی ووٹر سوکرو نے کہا: ’ترکی ایک غیر جمہوری ملک بن گیا ہے۔ میں ایک مضبوط ترکی کو یورپی یونین میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں ایک ایسے ملک میں رہنا چاہتا ہوں جو قانون کی حکمرانی اور یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے احکام کا احترام کرتا ہو۔‘

ان کے بقول: ’پچھلی بار میں زیادہ پر امید تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ تبدیلی آئے گی۔ اگر اردوغان جیت گئے تو میں ترکی چھوڑنے پر غور کروں گا۔‘

یہ الیکشن ایک ایسے وقت پر ہو ئے جب ترکی کو معاشی بدحالی، مہنگائی اور فروری میں آنیوالے شدید زلزلے کا سامنا کرنا پڑا۔

ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی (جمہوریت خلق پارٹی) ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اردوغان کو مبارک بعد دی ہے۔

سیکیولر ترک جمہوریہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف سے تشکیل دی گئی یہ جماعت ترک قوم پرستی کے نظریے کی وفادار ہے اور اسے سیاست کے مرکز میں بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔

رپبلکن پیپلز پارٹی نے نیشن الائنس نامی اتحاد میں خود کو دیگر قوم پرست اور قدامت پسند قوتوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما کمال قلیچ‌ داراوغلو کو ’نیشن الائنس‘ نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے، وہ حزب اختلاف کی چھ جماعتوں کے اتحاد کے متفقہ امیدوار تھے۔

وہ نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے سابق سرکاری افسر ہیں اور اس لحاظ سے وہ ترکی کے طاقتور صدر اردغان سے بالکل مختلف شخصیت ہیں۔

قلیچ‌ داراوغلو ایک انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں، جو سال 2002 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔

قلیچ‌ داراوغلو نے 2011 میں شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ترکی میں پناہ لینے والوں کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے علاوہ حزب اختلاف نے ووٹرز کو یقین دلایا ہے کہ وہ اردوغان کے دور اقتدار میں تعلقات تیزی سے خراب ہونے کے بعد یورپ کے ساتھ پیدا ہونے والے روابط کو بہتر کرے گی۔

دوسری جانب رجب طیب اردوغان پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ زلزلے سے لاکھوں متاثرہ افراد کو متاثرہ ایک سال کے اندر نئے گھر فراہم کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا