جب نور جہاں کے منہ میں پانی بھر آیا

بے بی نورجہاں کے تھیٹر میں آواز کا جادو جگانے کے اعلان پر میں اور میرا ہم عمر محلے دار کھوجی بن کر برباد ٹاکیز میں منعقد ہونے والے اس ’جادو کے کھیل‘ کو دیکھنے گئے۔

ایک لڑکی جسے بے بی نورجہاں کہتے تھے ، گانے گاتی رہی اور لوگ اس پر پیسے نچھاور کرتے رہے اور واہ واہ کرتے رہے۔(سوشل میڈیا)

یہ سنہ چالیس عیسوی کی دہائی کی بات ہے۔ میں پرائمری جماعت کا طالب علم تھا۔ ان دنوں کوئٹہ کے سنیما میں لگنے والی نئی فلم کی تشہیر تانگہ پر بیٹھے پیشہ ور ڈھنڈورچی کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔ تانگے کے عقبی پائیدان پر فلمی بورڈ آویزاں ہوا کرتا تھا جس پر فلم کا بڑا سا رنگین پوسٹر چسپاں ہوتا اور جلی حروف میں فلم، اداکاروں، اداکاراؤں اور ڈائریکٹر وغیرہ کے نام لکھے ہوتے تھے۔ ڈھنڈورچی تانگے کی عقبی نشست پر لگے بورڈ کے پیچھے براجمان ہو کر ٹین کے بنے مخروطی شکل کے بھونپو کے ذریعے، جس کا سرا اس کے منہ کے قریب  اور  دوسرا بڑا محیط سرا بورڈ اور تانگے کے ڈھانچے کے درمیان موجود خالی جگہ سے باہر نکلا ہوتا تھا، سے تفویض کردہ متن کے مطابق اعلانات کیا کرتا تھا۔

 

بچے عادتا اس تانگے کے پیچھے ہو لیتے۔ ہمارا تجسس صرف یہ ہوا کرتا کہ بورڈ کے پیچھے چھپا ڈھنڈورچی کون ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھ کر،  یا اپنے محلے کی حدود تک(جو بھی پہلے وقوع پذیرہو)، تانگے کا پیچھا کرتے تھے۔ ایک روز ڈھنڈورچی کو اعلان کرتے سنا۔ ’آج شام کو برباد ٹاکیز میں بے بی نورجہاں اپنی آواز کا جادو جگائے گی۔‘ اس اعلان نے ہمیں کھوج لگانے پر ابھارا کہ ایک لڑکی جادو کے کیا کرتب دکھائے گی۔ چنانچہ میں اور میرا ہم عمر محلے دار کھوجی بن کر برباد ٹاکیز (ایک وضاحت ضروری ہے کہ سنیما کا نام پربھات ٹاکیز تھا جو کوئٹہ کے لہجے میں ’برباد‘ سنائی دیتا تھا) میں منعقد ہونے والے اس ’جادو کے کھیل‘ کو دیکھنے گئے۔ ٹکٹ کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ کھیل دیکھ ہمیں مایوسی ہوئی کہ وہاں جادو کا تو کوئی کھیل نہ دکھایا گیا۔ البتہ ایک لڑکی جسے بے بی نورجہاں کہتے تھے ، گانے گاتی رہی اور لوگ اس پر پیسے نچھاور کرتے رہے اور واہ واہ کرتے رہے۔ ہم ہونقوں کی مانند اسے دیکھا کیے۔ وہ لڑکی گاہے بگاہے ہمیں پیار بھری نظروں سے دیکھ کر مسکراتی دیتی۔ شاید اسے اپنے کم سن پرستاروں پر پیار آرہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے پیچھے نشست پر ایک خوبصورت سرخ و سفید رنگ والا نوجوان بیٹھا تھا، جو کٹے ہوئے لیموں پر نمک چھڑک کر چٹخارے لے لے کر چاٹے چلا جا رہا تھا۔ درمیانی وقفہ میں جب سٹیج کا پردہ گرا یا گیا تو ایک آدمی اس لڑکے کے پاس آکر کہنے لگا ’خدا کےلیے لیموں نہ چاٹیں بے بی کے منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ ٹھیک سے گا نہیں پا رہی۔‘ کافی بحث مباحثہ کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ وہ نوجوان بدستور اگلی نشست پر بیٹھ کے بغیر ٹکٹ خریدے روزانہ (جتنے دن شو ہوگا) پروگرام دیکھے گا۔ لیکن اس دوران وہ ہرگز لیموں نہیں چاٹے گا۔ شو کے آخری دن اختتام کے مرحلہ پر اس نوجوان نے کھڑے ہو کر بلند آواز میں’ہائے‘ پکارا اور اپنے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا۔ بے بی کی دلخراش چیخ نکل گئی۔ سٹیج کا پردہ گرایا گیا۔ نوجوان زمین پر گر گیا۔ لوگ اسے اٹھا کر باہر لائے لیکن وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اس سے پہلے کہ  لوگ اسے اس ڈرامابازی کی سزا دیتے وہ بھاگ کھڑا ہوا۔

دراصل وہ خنجر جس کو پیٹ میں گھونپنے کی اداکاری کی تھی ایک کھلونا تھا۔ جس کے پھل کے ساتھ سپرنگ لگا ہوا تھا۔ وہ سپرنگ خنجر کے کھوکھلے دستے کے اندر جڑا ہوتا ہے۔ خنجر گھونپنے کے عمل کے دوران اس کا پھل دستے کے اندر چلا جاتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے خنجر کی انی جسم میں پیوست ہو گئی ہے۔

اس روز میں پہلی بار سٹیج اور اداکاری سے آشنا ہوا۔ وہ نوجوان(حاجی نذر محمد درانی) بعد میں مزاحیہ اداکار کے طور پر معروف ہوا، جس نے فلم سوسائٹی میں پاسنگ شو( اس وقت سگریٹ کا معروف برانڈ) کے فلمی نام سے کام بھی کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ