گومل یونیورسٹی کا شعبہ صحافت 45 سال بعد کیوں بند ہو رہا ہے؟

گومل یونیورسٹی پشاور یونیورسٹی کے بعد صوبے کی سب سے پرانی یونیورسٹی ہے جہاں پر مختلف شعبہ جات میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق گومل یونیورسٹی میں شعبہ صحافت بند کرنے کے فیصلے کی توثیق یونیورسٹی سنڈیکیٹ میٹنگ میں کی جائے گی(تصویر: گومل یونیورسٹی ویب سائٹ)

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی میں گذشتہ 45 سال سے قائم شعبہ صحافت کو طلبہ کی کم تعداد کی وجہ سے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم فیصلے کی توثیق یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میٹنگ میں کی جائے گی۔

یونیورسٹی کی جانب سے گذشتہ روز جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’شعبہ صحافت میں کم تعداد کی وجہ سے اس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس فیصلے کی توثیق یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی اگلی میٹنگ کے ایجنڈے میں شامل ہو گی۔‘

گومل یونیورسٹی پشاور یونیورسٹی کے بعد صوبے کی سب سے پرانی یونیورسٹی ہے جہاں پر مختلف شعبہ جات میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

بیان میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر شکیب اللہ کا کہنا تھا کہ ’انتہائی آفسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ گومل یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں گذشتہ کئی سالوں سے طلبہ کی تعداد انتہائی حد تک کم ہو چکی ہے اور اس شعبے کی طرف سے شعبہ صحافت میں طلبہ کی تعداد بڑھانے کی لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔‘

وائس چانسلر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’سنڈیکیٹ میٹنگ میں یہ ایجنڈہ آئٹم رکھا ہے۔ وہ شعبہ جات بھی بند کریں گے جن میں طلبہ کی تعداد کم ہے کیونکہ طلبہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ جات یونیورسٹی پر مالی بوجھ بن گئے ہیں۔‘

تاہم یونیورسٹی کے ترجمان محمد ریحان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ مسئلہ صرف گومل یونیورسٹی کا نہیں ہے بلکہ سب یونیورسٹیوں میں ہے اور اس کی وجہ بی ایس پروگرام ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کالج لیول پر بی ایس پروگرام شروع ہونے سے یونیورسٹیوں کے سب شعبہ جات کے داخلوں پر اثر پڑا ہے لیکن گومل یونیورسٹی کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا۔‘

کیا باقی یونیورسٹیوں میں بھی شعبہ صحافت کے طلبہ کم ہوئے ہیں؟

پروفیسر فیض اللہ جان پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں طلبہ کی تعداد مختص نشستوں سے بھی زیادہ ہے اور اب بھی تین بیچز تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘

فیض اللہ جان نے بتایا کہ ’ہمارے پاس 250 سے زائد طلبہ بی ایس پروگرام میں پڑھ رہے ہیں جس میں آٹھویں سمسٹر کا بیچ بھی ہے جو ابھی فارغ التحصیل ہو جائے گا۔ ہر سال ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام خواہش مند طلبہ کو نشستوں کی کمی کی وجہ سے داخلہ نہیں ملتا اور ہم میرٹ پر طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں۔‘

گومل یونیورسٹی میں طلبہ کی کمی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’گومل یونیورسٹی کے قریب ضلع کرک میں یونیورسٹی میں شعبہ صحافت بھی ہے لکی مروت ضلع میں بھی ہے اور قریب کوہاٹ یونیورسٹی میں بھی ہے تو یونیورسٹیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ گومل یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد کم ہو۔‘

فیض اللہ جان نے مزید بتایا کہ ’اس کے ساتھ جامعات کو شعبہ صحافت میں صرف ڈگری دینے کے بجائے طلبہ کو ایسے ہنر بھی سکھانے چاہییں کہ وہ صحافت کی ڈگری لینے کے بعد صرف صحافی نہ بنیں بلکہ ابلاغ عامہ اور دیگر شعبہ جات میں جا کر بھی خدمات سرانجام دے سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ’پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں طلبہ کی زیادہ تعداد کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ بڑا شہر ہے اور پشاور یونیورسٹی کا اپنا ایک نام ہے۔ طلبہ کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ مل سکے۔‘

منظور علی پشاور میں روزنامہ ڈان کے ساتھ گذشتہ کئی سالوں سے بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پشاور یونیورسٹی کے بعد گومل یونیورسٹی صوبے کے دوسری پرانی یونیورسٹی لیکن یہ بہت حیرانی کی بات ہے کہ وہاں پر طلبہ کی کمی کی وجہ سے شعبے کو بند کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب کرک اور لکی مروت کی یونیورسٹیوں میں بھی شعبہ صحافت موجود ہے تو شاید طلبہ وہاں جانے کی وجہ سے گومل میں طلبہ کی تعداد کم ہو گئی ہو۔‘

پاکستان میں غیر صحافی افراد کے یوٹیوب اور مائیک کلچر عام ہونے کے حوالے سے منظور نے بتایا کہ ’اس میں کچھ حد تک صداقت ہے کہ شعبہ صحافت کی ڈگری کی اہمیت کم ہو گئی ہے کیونکہ ہر یوٹیوبر سمجھتا ہے کہ وہ بھی صحافی ہے۔‘

منظور علی کے مطابق ’اگر پشاور یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد زیادہ اور کسی خاص یونیورسٹی میں تعداد اتنی کم ہے کہ شعبے کو بند کیا جا رہا ہے تو اس سے واضح ہے کہ شعبہ صحافت میں دلچپسی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ یونیورسٹی میں مسئلہ ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس