نو مئی ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے، ’غیر متعلق‘ افراد بھی گرفتار

قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں ایک جانب نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں وہیں دوسری جانب بظاہر ان واقعات سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے افراد بھی گرفتار کیے جا رہے ہیں۔

لاہور میں واقع جناح ہاؤس جہاں کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ تھی اور جسے نو مئی 2023 کو مشتعل ہجوم نے نذر آتش کر دیا تھا (انڈپینڈنٹ اردو)

نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور حکام کی جانب سے ان میں مبینہ طور پر ملوث درجنوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ایک جانب جہاں ان واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاریوں کے لیے تاحال چھاپے مارے جا رہے ہیں وہیں دوسری جانب مبینہ طور پر ایسے افراد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جن کا بظاہر ان واقعات سے کوئی تعلق سامنے نہیں آ سکا۔

پنجاب پولیس کے مطابق لاہور میں جناح ہاؤس حملہ میں ملوث بیشتر ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جبکہ تھانہ سرور روڑ کینٹ میں درج نو مئی کو کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) پر مبینہ حملہ آوروں کو جیو فینسنگ، ویڈیوز، تصاویر اور چینلز فوٹیج کی مدد سے گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

اس معاملے میں دیگر فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان بھی گرفتار کیے گئے جن میں 40 سے زائد کو ابھی تک آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوج کے حوالے بھی کیا جا چکا ہے۔

ویسے تو پولیس نے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی ملزمان گرفتار کر لیا ہے جن میں میاں محمود الرشید، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، خدیجہ شاہ اور دیگر شامل ہیں لیکن تاحال کئی نامزد ملزم ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکے۔

ان افراد میں میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، فرخ حبیب، حسان نیازی سمیت زبیر نیازی و دیگر شامل ہیں۔

 کچھ ملزمان جیسے کہ میاں اسلم اقبال، حماد اظہر اور فرخ حبیب اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس سے ٹویٹس بھی کرتے رہتے ہیں اور پولیس چھاپے مارنے کے باوجود انہیں تاحال حراست میں نہیں لے سکی۔

میاں اسلم اقبال نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ان کے ایک بھائی کو پولیس نے گرفتار کر لیا، دوسرے بھائی کے گھر اقبال ٹاؤن میں پولیس نے چھاپہ مار کر توڑ پھوڑ کی اور سامان اٹھا کر لے گئے۔ پولیس اس طرح بےگناہوں کے خلاف کارروائی سے باز رہے۔‘

اسی طرح حماد اظہر اور فرخ حبیب بھی انہیں پکڑنے کے لیے مارے جانے والے چھاپوں سے متعلق ٹویٹس کرتے رہتے ہیں۔

لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پولیس جدید ٹیکنالوجی سے لوکیشن ٹریسنگ اور دیگر ذرائع سے اطلاع ملنے کے باوجود ان ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کر پا رہی؟

اس بارے میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، فرخ حبیب اور حسان نیازی چھپے ہوئے ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ وہ جلد ہی گرفتار ہو جائیں گے۔‘

ادھر تحریک انصاف کی قیادت کا الزام ہے کہ ان کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لیا لیکن گرفتاری ظاہر نہیں کی اور وہ لاپتہ ہیں۔

اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس امیر بھٹی کے سامنے عمران ریاض کیس میں آئی جی پنجاب بیان دے چکے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے کئی رہنما خود کہیں چھپے ہوئے ہیں اور لاپتہ ہونے کا جھوٹ بولا جا رہا ہے۔‘

پولیس کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پولیس ابھی تک 350 سے زائد پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے اور 430 سے زائد ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے۔ جبکہ باقیوں کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے کر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

’غیر متعلق‘ افراد کی گرفتاری

ایک جانب جہاں ان واقعات میں ملوث افراد کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں وہیں دوسری جانب مبینہ طور پر کئی ایسے افراد کو بھی اٹھایا گیا جن کا ان واقعات سے براہ راست کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔

ان میں سے ایک قاضی حبیب الرحمان بھی ہیں جنہیں لاہور سے 10 مئی کو ان کے بیٹے کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔

قاضی حبیب الرحمٰن کے بقول ان کو تو دو دن بعد رہا کر دیا گیا تاہم 37 روز گزرنے کے باوجود ان کے بیٹے کو رہائی نہ مل سکی۔ 

قاضی حبیب الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 10 مئی کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے باوردی افسران اور سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ افراد تین چار ڈالوں پر آئے اور انہیں اور ان کے بیٹے ظہور الحسن کو ساتھ لے گئے۔

ان کے مطابق ’دو روز رکھنے کے بعد انہوں نے میری بیماری کے باعث مجھے چھوڑ دیا۔ میں نے ظہور الحسن سے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں ہم روٹین کے مطابق چھوڑیں گے، دو روز رکھنے کے بعد پھر چھوڑ دیں گے۔‘

’آج 37 روز ہو گئے لیکن ظہور ابھی تک گھر نہیں آیا۔ بعد ازاں تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے پہنچے تو افسران نے درخواست دیکھتے ہی کہا کہ اسے درج نہیں کر رہے۔ اس سے متعلق سی سی پی او سے لکھوا کر لائیں۔ سی سی پی او اور انسپیکٹر جنرل (آئی جی) کو درخواست دینے کے بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔‘

ظہور الحسن مشوانی پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان اظہر مشوانی کے بھائی ہیں۔ 

قاضی حبیب الرحمان نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وہاں مجھ سے کسی نے مطالبہ نہیں کیا لیکن یہ ضرور کہا کہ اظہر مشوانی کو پیش کریں۔ اظہر کو دو مرتبہ اٹھایا جا چکا ہے۔ ظہور الحسن نہ سیاسی کارکن ہے اور نہ سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘

ظہور الحسن کے والد نے سیشن جج کی عدالت میں بھی ایف آئی آر درج کروانے کی درخواست دی جس کے بعد تاحال ایس ایچ او معاملے سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کروا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی جانب سے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی کہ جس میں سی سی پی او اور آئی جی سے جواب طلب کیا گیا تھا، جواب میں کہا گیا کہ ’نہ ظہور الحسن کے خلاف کوئی کیس درج ہے اور نہ وہ ہمارے پاس موجود ہے۔‘

ظہور کے والد قاضی حبیب کا کہنا ہے ’پولیس والے مکر گئے ہیں حالانکہ ہمیں اٹھائے جانے کے دوران میرے گھر والوں کے علاوہ اس وقت گھر آئے مہمان بھی گواہ تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ظہور کے چار چھوٹے بچے ہیں جو ان کے منتظر ہیں۔ بچے پوچھتے رہتے ہیں کہ بابا کہاں ہیں؟ اس وجہ سے ہمیں مزید پریشانی ہوتی ہے کہ انہیں کیا جواب دیں۔ ہم اپنے بچوں کو بھی باہر نہیں نکالتے، ان سے کیا بعید ہے؟‘

اہل خانہ کے مطابق 36 سالہ ظہور الحسن پیشہ کے اعتبار سے پروفیسر ہیں قاضی حبیب کا کہنا ہے کہ ’ظہور کے طلبہ کے ساتھ ان کے اپنے بچوں کی پڑھائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اظہر کے حوالے سے کچھ معلوم ہے۔‘

اظہر سے رابطے سے متعلق انہوں نے کہا ’ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اظہر اٹھایا گیا یا وہ غائب ہے، ہمیں معلوم نہیں۔ جو ہماری نظروں کے سامنے اٹھایا گیا اس کا اقرار نہیں کر رہے، تو اظہر کا کیا کریں گے؟ یہ کنفرم نہیں کہ اظہر کو بھی اٹھایا لیا گیا ہے۔‘

ظہور الحسن کی طرح کئی ایسے افراد کے اٹھائے جانے کی اطلاعات ہیں جن کا پی ٹی آئی یا نو مئی کے واقعات سے براہ راست تعلق نظر نہیں آ رہا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان