شمالی مقدونیہ کے ویران گاؤں میں مقیم شخص کی منفرد لائبریری

لائبریری کے مالک 72 سالہ سٹیوو سٹیپانوسکی کے مطابق یہاں جہاں 20 ہزار کتابوں کا قابل ذکر مجموعہ موجود ہے۔

شمالی مقدونیہ کے دور افتادہ گاؤں بابینو کے رہائشی کئی برس قبل اپنا گھر بار چھوڑ کر وہاں سے جاچکے ہیں، لیکن سٹیوو سٹیپانوسکی اور ان کا 20 ہزار کتابوں کا قابل ذکر مجموعہ اس تقریباً ویران وادی میں اب بھی موجود ہے۔

اس لائبریری کا آغاز سٹیپانوسکی کے پردادا نے کیا تھا، جنہیں پہلی بار عثمانی فوجیوں نے 19 ویں صدی کے آخر میں اپنی کتابوں کا مجموعہ دیا تھا۔

مقدونیہ کی زبان میں تاریخ کی کتابوں اور ناولوں کے ساتھ ساتھ فارسی، عربی، ترکی اور پرانے یوگوسلاویہ کی اہم زبان سربو کروٹ میں بھی کتابیں اس لائبریری کا حصہ ہیں۔

اس لائبریری میں پہلی عالمی جنگ کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کی کھینچی گئی اصل تصاویر، قدیم نقشے اور خطے کی متعدد زبانوں کا احاطہ کرنے والی ڈکشنریاں بھی موجود ہے۔

72 سالہ سٹیوو سٹیپانوسکی نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ تعلیم اور روشن خیالی کا گاؤں ہے۔‘

وہ صدیوں پرانے اپنے گھر میں بنی لائبریری میں باقاعدگی سے مہمانوں کو کافی کے کپ کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں۔

اس لائبریری نے گاؤں والوں کو انتہائی تعلیم یافتہ بنانے میں مدد کی ہے، جن میں سے غیر معمولی تعداد میں لوگ اساتذہ بنے۔

’کوئی ایسا گھر نہیں، جہاں کوئی ٹیچر نہ ہو‘

سٹیپانوسکی نے بتایا: ’ایسا کوئی گھر نہیں تھا، جہاں کوئی ٹیچر نہ ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس کا بھی گاؤں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 1950 کی دہائی میں، یوگوسلاین حکومت نے وادی کے اساتذہ کو ملک گیر خواندگی مہم کے لیے بلا لیا، جس سے یہاں کی زیادہ تر آبادی مؤثر طریقے سے یہاں سے چلی گئی۔

جنوب مشرقی یورپ کے زیادہ تر علاقوں کی طرح شمالی مقدونیہ بھی کم ہوتی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے۔

عمر رسیدہ آبادی، کم ہوتی ہوئی شرح پیدائش اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسے تین مسائل نے یہاں کے بہت سے دیہی علاقوں کو ویران کردیا ہے۔

بابینو اس سب سے خاص طور پر متاثر ہوا۔ کبھی یہاں آٹھ سو سے زیادہ افراد رہائش پذیر تھے لیکن اب یہاں صرف تین مستقل رہائشی ہیں۔

اور اب جبکہ سٹیپانوسکی کے بچے بھی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہاں سے جاچکے ہیں، وہ بابینو میں اپنی کتابوں کے ساتھ ہی مقیم رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔

لیکن ایک دنیا ان کے پاس آتی ہے اور ایک سال میں تین ہزار سے لے کر ساڑھے تین ہزار کے درمیان لوگ لائبریری کا دورہ کرتے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر کا تعلق قریبی قصبوں اور دیہات یا پڑوسی ممالک سے ہوتا ہے، لیکن اس کے علاوہ برازیل، مصر اور مراکش سے آنے والے مسافروں کے ساتھ ادبی سکالرز اور محققین بھی لائبریری آتے ہیں۔

دارالحکومت اسکوپجے کے ایک سکول میں موسیقی کے پروفیسر گوس سیکولوسکی، جنہوں نے حال ہی میں بابینو کا دورہ کیا تھا، نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے حیرت ہے کہ یہاں ایسے عنوانات مل سکتے ہیں، جو شہر کی لائبریریوں میں نہیں مل سکتے۔‘

سٹیپانوسکی نے یہاں مطالعے اور محافل موسیقی کے لیے ایک چھوٹا ایمفی تھیٹر بھی بنا رکھا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ لوگوں کو یہاں آکر بیٹھنے اور تجربہ حاصل کرنے کے لیے ایک پرسکون ماحول پیش کرتے ہیں۔

’اگر آپ کتابوں کا جادو دریافت کرنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کام یہاں بہترین انداز میں کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ