بونیر: سوالوں کی ’پرورش‘ کرنے والی فانوس لائبریری

خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر میں قائم فانوس لائبریری مفت کتاب بینی کے فروغ کے ساتھ مختلف موضوعات پر مکالمے کے ذریعے شعوری سوالات پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

بونیر میں واقع یہ لائبریری ایسی جگہ ہے جہاں نوجوان اکٹھے ہو کر ایسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں (تصویر: شہزاد نوید)

خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر میں عوامی لائبریری کے بانی نوجوان شبنم بونیری کا کہنا ہے کہ ان کی فانوس لائبریری میں ’سوالوں کی پرورش ہوتی ہے‘۔

بونیر میں واقع یہ لائبریری ایسی جگہ ہے جہاں نوجوان اکٹھے ہو کر ایسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں جن پر عام حالات میں بات کرنا معمول نہیں۔

شبنم بونیری نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہاں نہ صرف نوجوان کتاب تک مفت رسائی حاصل کرتے ہیں بلکہ وہ سیاست سے لے کر تاریخ و فلسفے تک ہر موضوع پر بلا کسی روک ٹوک کے آزادانہ بحث کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ یہاں پر بنیادی طور پر سوالوں کی پرورش ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سوال سب سے مقدس ہے اور ہم لوگوں میں سوال کرنے کی جرات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

شبنم کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں میں تنقیدی شعور اور دوسروں کی رائے کا احترام اجاگر کرنے کے لئے کتاب اور مکالمہ کو جہالت اور عدم برداشت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہیں۔‘

فانوس لائبریری کے ممبر اور طالب علم خالد شاہ نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’بونیر میں بارہ لاکھ آبادی کے لیے یہ واحد لائبریری ہے جہاں پر تین ہزار سے زائد کتابیں پڑی ہیں۔ مختلف موضوعات پر ہم تفصیلی بحث کرتے ہیں اور اس کے بعد وکلا اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی گفت و شنید کی جاتی ہے اور مسئلے کے نتائج پر ہم پہنچ جاتے ہیں۔‘

انسانی حقوق کے کارکن اور مشال خان (جنہیں 2016 میں مردان کی سرکاری یونیورسٹی میں اجتماعی تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا تھا) کے والد اقبال خان نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’بونیر میں اس لائبریری کے ذریعے نوجوانوں کی مثبت سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور مختلف مسائل کے حل میں ان نوجوانوں کا بڑا کردار ہے۔‘

اقبال خان نے کہا کہ ’اگر ایسی ہی سوچ رکھنے والے نوجوان دیگر علاقوں میں بھی اکھٹے ہو جائیں تو مستقبل میں اس قوم کو اچھے اور باصلاحیت لیڈرشپ مل سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ سائنس اور علم کا دور ہے۔ ان بچوں کو گولیاں مت ماریں۔ ان کے سوالوں کا جواب دیں۔‘

فانوس لائبریری کے ایک ممبر سید عرفان علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’کتابیں تو میں گھر میں بھی پڑھ سکتا ہوں۔ یہاں آنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ اس لائبریری میں کم از کم تین ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں اور ہمارے ساتھی مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جس میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔‘

لائبریری کے بانی شبنم بونیری کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو شعور دیا جائے تعلیم دی جائے اور ان مسائل پر بات ہو جن پر معاشرہ بات نہیں کرتا یا جن موضوعات کو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن یہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘

بونیری کا کہنا تھا کہ ’اس وجہ سے ہم نے مکالمہ کے نام سے یہاں گفتگو کا آغاز کیا۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ پہلے کم لوگ آتے تھے لیکن اب زیادہ تر نوجوان ہمارے پاس آتے ہیں۔ مختلف ماہرین بھی آتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو اور مکالمہ ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل