یونان کشتی حادثے میں ڈوبنے والوں کے اہل خانہ ’لاشوں کے منتظر‘

یونان میں کشتی حادثے میں مرنے والے یا لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین کی صورت حال ہر گھر میں ایک جیسی ہی ہے جہاں میتوں کے بغیر سوگ کا سماں ہے۔

یونان میں کشتی حادثے میں مرنے والے یا لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین کی صورت حال ہر گھر میں ایک جیسی ہی ہے جہاں میتوں کے بغیر سوگ کا سماں ہے۔

کشتی حادثے میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد پاکستانی بھی شامل ہیں۔

یونان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک اس حادثے کے نتیجے میں مرنے والے 81 افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سینکڑوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

حادثے کا شکار بننے والے پاکستانیوں میں ایک ناصر علی بھی ہیں جن کی اہلیہ بشیراں بی بی ان کے اٹلی پہنچنے کی خوشخبری کا انتظار کر رہی تھیں، مگر انہیں کشتی ڈوبنے کی خبر ملی۔

’پہنچنے کی خوشخبری کی جگہ کشتی ڈوبنے خبر‘

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بشیراں بی بی ’دو دن سے بے ہوش ہیں۔ انہیں ہوش میں لانے کی کوششوں کے باوجود ابھی تک کامیابی نہیں ملی۔‘

’جب سے انہیں کشتی ڈوبنے اور اس میں اپنے شوہر ناصر علی کے موجود ہونے کا پتہ چلا ہے اس وقت سے وہ نڈھال ہیں۔‘

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق یونان کشتی حادثے میں لاپتہ پاکستانیوں کی تعداد 83 تک پہنچ چکی ہے۔

کشتی حادثے میں لاپتہ یا مرنے والے بیشتر پاکستانیوں کا تعلق پنجاب کے شہر گجرانوالہ، گجرات، شیخو پورہ، فیصل آباد اور منڈی بہاؤالدین کے دیہی علاقوں سے ہے۔

فیصل آباد کے نواحی گاؤں ملیانوالی چک نمبر 537 سے دو افراد ناصر علی اور فخر الزمان بھی ایسے افراد میں شامل تھے جو روزگار کی تلاش میں ایجنٹس کو لاکھوں روپے ادا کر کے اٹلی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

ناصر علی نے دو شادیاں کر رکھی ہیں جبکہ ان کے چار بچے ہیں۔ ان کی ایک بیوی بشیراں بی بی دو دن سے بے ہوش بتائی جاتی ہیں۔

دوسری بیوی اقرا بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ناصر محنت مزدوری کر کے بمشکل دو وقت کی روزی کماتے تھے، لیکن ہمارے ایک عزیز ایجنٹ نے انہیں سبز باغ دکھائے اور زمین فروخت کرا کے 35 لاکھ روپے لیے اور انہیں اٹلی بھجوانے کا وعدہ کیا۔‘

’ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ قانونی طور پر ویزے کے ذریعے انہیں اٹلی بھجوائیں گے۔‘

اقرا کے مطابق ایجنٹ نے کئی دن پہلے انہیں جانے کا کہا اور ایئر پورٹ سے ہم نے انہیں روانہ کیا۔ ’بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لیبیا میں ہیں اور وہاں سے آگے جانا ہے۔‘

’پھر ہمیں کال کر کے ناصر نے بتایا کہ وہ انہیں کشتی کے ذریعے یونان کے راستے اٹلی پہنچائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اس سب کے بعد ’کشتی ڈوبنے کی اطلاع ملی تو کہرام مچ گیا، ہم بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے۔ بچ جانے والوں میں دیکھا ناصر نہیں ہیں، ان کے ایک دوست نے تصدیق کی کہ وہ ڈوب جانے والوں میں تھے۔‘

اسی گاؤں کے فخر الزمان بھی ناصر کے ساتھ گئے تھے۔ ان سے بھی ایجنٹ نے 35 لاکھ روپے لیے تھے۔

’سب کچھ بیچ کر بیٹے کو بھیجا تھا‘

فخر الزمان کی والدہ ثریا بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا بیٹا شادی شدہ ہے، ایک بچی ہے۔ ہم نے اپنا سب کچھ بیچ کر ایجنٹ کو پیسے ادا کیے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ میرا بیٹا بھی ڈوب جانے والوں میں شامل ہے۔‘

’ہماری اپیل ہے کہ ہمارے بچوں کی لاشیں ہی واپس دے دیں۔ ہم ان کی تدفین تو کر سکیں۔ ہمارے گھر سوگ کرنے والوں کی آمد جاری ہے لیکن لاش ہوگی تو جنازہ اور تدفین ہوگی۔ اپنے بیٹے کی موت کا یقین بھی لاش دیکھ کر ہی آئے گا۔‘

ثریا بی بی نے کہا کہ ’کسی حکومتی شخصیت نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا، نہ ہی مصدقہ اطلاع مل رہی ہے۔ بس ان کے دوستوں سے ہی خبریں مل رہی ہیں۔ ہم تو خود بھی کچھ نہیں کر سکتے۔‘

چک نعرہ سے تعلق رکھنے والے دو کزن اعجاز محمود اور عثمان علی بھی کشتی حادثے میں لاپتہ ہوئے ہیں۔ ان دنوں نے بھی اپنے حصے کی زمین فروخت کر کے اٹلی کا سفر کیا۔

اعجاز اور عثمان غیر شادی شدہ تھے۔ ان کے ماموں محمد آفاق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے دونوں بچے ہم نے جائیداد بیچ کر بھیجے تھے۔ ایجنٹ نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ انہیں بحفاظت اور قانونی طریقے سے اٹلی بھجوائیں گے لیکن پھر معلوم ہوا کہ وہ الٹنے والی کشتی میں تھے۔‘

’یہ اطلاع ان کے اٹلی میں موجود رشتہ دار نے دی تھی۔‘

آفاق کے مطابق ’کسی حکومتی شخصیت نے ان سے نہ رابطہ کیا نہ ہی لاشوں کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بلوایا گیا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ حکومت ہماری مدد کرے اور اس مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دے۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنے یونانی ہم منصب سے رابطہ کیا ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستانیوں کی شناخت اور لاشوں کو وطن پہنچانے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

اہل علاقہ کے مطابق اس گاؤں کی آبادی 35 سو کے قریب ہے جبکہ چھ سو کے قریب افراد پہلے ہی یہاں سے بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔

پاس کے ہی ایک اور گاؤں گورایہ والا سے تین افراد اکرم ولد اشرف، محبوب ولد ایوب، بلال والد اشرف بھی اسی کشتی میں سوار تھے جبکہ وہ بھی زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں میں شامل نہیں۔

اسی طرح گجرات، گجرانوالہ اور منڈی بہاؤالدین کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔

دوسری جانب ایف آئی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے  قیصر بشیر مخدوم کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے کشتی حادثے میں ملوث غیر ملکی ایجنٹس کے خلاف انٹرپول کے ذریعے کارروائی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’بیرون ممالک بیٹھ کر انسانی سمگلرز اس گھناؤنے کاروبار کو سب ایجنٹس کے ذریعے آپریٹ  کرتے ہیں۔‘

ایف آئی اے کے سابق افسر سجاد مصطفیٰ باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے سنجیدہ ہو کر کارروائی کریں تو یہ ختم ہوگا۔ اگر روٹین میں لیں گے تو پھر ایسے ہی رہے گا جیسے 70 سالوں سے چل رہا ہے۔‘

’سب سے پہلے جو کمیٹی بنی ہے اس کی سفارشات دیکھیں کیا ہوتی ہیں، امید ہے ان سفارشات سے اس (انسانی سمگلنگ) کا قلعہ قعمہ کرنے میں مدد ملے گی۔‘

سجاد باجوہ نے کہا کہ ’اگر کمیٹی کی سفارشات پر عمل ہوا اور کرپٹ افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوئی اور انکوائریوں میں ذمہ دار قرار دیے گئے افسران کے خلاف ایکشن ہوتا ہے تو سمجھیں بہتری ضرور آئے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان